افغانستان سے ملحقہ پاکستان کے ضلع کرم میں متحارب قبائل کے درمیان زمین کے تنازع پر شروع ہونے والی مسلح جھڑپیں 30 رکنی مصالحتی جرگے کی کوششوں کے بعد رک گئی ہیں۔
کرم کے ضلعی پولیس افسر محمد عمران کے مطابق 30رکنی جرگہ نے جنگ بندی کا اعلان بدھ کو کیا تھا جس کے بعد متحارب قبائل کے قائم کردہ مورچوں کو رات گئے تک خالی کر دیا گیا۔ ضلع کے دوسرے بڑے قصبے سدہ سے تعلق رکھنے والے صحافی محمد جمیل نے رابطے پر جنگ بندی کی تصدیق کرتے ہوئےبتایا کہ وہاں اب بھی انٹرنیٹ سسٹم معطل ہے اور اہم سڑکوں پر آمد و رفت نہ ہونے کے برابر ہے۔
یہ 30 رکنی جرگہ منگل کو کمشنر کوہاٹ ڈویژن نے تشکیل دیا تھا۔ جرگے میں شامل ایک قبائلی رہنما نے وفاقی وزیر ساجد طوری اور ڈپٹی کمشنر کرم محمد شعیب کی موجودگی میں فریقین کے سرکردہ رہنماؤں سے مذاکرات کیے جس کے بعد جنگ بندی کا اعلان کیا گیا۔
اس جنگ بندی کی میعاد کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا ہے مگر صحافی جمیل کے مطابق ابتدائی طور پر یہ میعاد ایک سال کے لیے ہو گی۔ تاہم بعد میں اس کا دورانیہ بڑھ سکتا ہے۔
کرم سے تعلق رکھنے والے قبائلی رہنما عطاء اللہ خان کا کہنا ہے کہ جب تک پورے ضلع میں زمینوں اور جائیدادوں کے تنازعات حل نہیں ہوتے تب تک مستقل طور پر امن نہیں آ سکتا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت فی الفور ان تنازعات کے حل کے لیے مستقل طور پر ایک با اختیار کمیشن قائم کرے اور اس وقت تک کے لیے جنگ بندی کو مؤثر بنائے۔
واضح رہے کہ سات جولائی کو اپر کرم کے علاقے بوشہرہ اور ڈنڈار کے قبائل کے مابین ایک زمینی تنازع س اس وقت شروع ہوا جب شاملاتی زمین پر ایک قبیلے کی جانب سے شروع کیے گئے تعمیراتی کام کو دوسرے قبیلے کے افراد نے روکنے کی کوشش کی اور یوں مسلح جھڑپیں شروع ہو گئیں۔
SEE ALSO: کرم میں شیعہ سنی تصادم؛ وہ لڑائی جو برسوں سے جانیں نگل رہی ہےبعد ازاں یہ تنازع مذہبی تصادم اور فرقہ وارانہ رنگ اختیار کرگیا اور فریقین ایک دوسرے پر ہمسایہ ممالک افغانستان اور ایران سے امداد طلب کرنے کے الزام عائد کرتے رہے۔
اطلاعات کے مطابق اس تصادم میں ایک خاتون سمیت 13افراد ہلاک اور 70 کے لگ بھگ زخمی ہوئے ہیں۔ البتہ سرکاری سطح پر اس حوالے سے کوئی اعداد و شمار جاری نہیں کیے گئے۔
صحافی محمد جمیل نے بتایا کہ بدھ کو جنگ بندی کے اعلان کے بعد جرگہ میں شامل افراد پانچ گروہوں میں تقسیم ہوگئےاور اپر کرم اور لوئر کرم میں متحارب فریقین کے مسلح افراد سے مورچے خالی کرانے کے لیے روانہ ہوئے اور رات گئے تک مورچے خالی کرانے میں کامیاب ہو گئے۔
اس جنگ بندی پر عمل درآمد میں مصالحتی جرگے میں شامل اراکین کے علاوہ ضلعی انتظامیہ، پولیس اور فرنٹیئر کور کے افسران اور اہلکار بھی حصہ لے رہے ہیں۔
ضلعی پولیس افسر محمد عمران کا کہنا ہے کہ مسلح قبائلیوں سے تمام تر مورچے خالی کرانے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے اور اب حالات مکمل طور پر قابو میں ہیں۔ تاہم محمد جمیل کے مطابق بدھ اور جمعرات کے درمیانی شب مختلف علاقوں میں فائرنگ کی آوازیں سنی گئیں جو ان کے مطابق لوگوں نے حفاظتی نقطہ نظر یا جنگ بندی کی خوشی میں کی ہوں گی۔
SEE ALSO: خیبرپختونخوا: ضلع کرم میں قبائلی تصادم کے دوران ہلاکتیں، معاملہ ہے کیا؟انہوں نے مزید کہا کہ ضلع بھر کے کشیدہ یا متاثرہ علاقوں میں لوگوں بشمول فریقین نے سفید جھنڈے لہرانا بھی شروع کر دیے ہیں۔
اس جرگے میں کوہاٹ، ہنگو، اورکزئی کے شیعہ اور سنی رہنما اور عمائدین بھی شامل تھے۔
اس جرگے کی گاڑیوں پر پاڑہ چنار جاتے وقت نامعلوم افراد نے فائرنگ بھی کی تھی جس میں کسی قسم کے جانی یا مالی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔
دوسری جانب سرکاری جرگے کے علاوہ خیبرکے ملک صلاح الدین کوکی خیل کی سربراہی میں ایک وفد مصالحت کے لیے پاڑہ چنار پہنچ چکا ہے۔