پاکستان میں افغان سرحد کے قریب واقع ضلع کرم کے صدر مقام پاڑہ چنار کے مرکزی بازار میں محمد رمضان 2007 تک پرچون کی ایک دکان چلاتے تھے۔
سن 2007 میں شیعہ اکثریتی علاقے پاڑہ چنار میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کی وجہ سے دیگر سینکڑوں سنی مسلک سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کے ہمراہ محمد رمضان بھی اپنا گھر اور دکان چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ وہ گز شتہ 13 برسوں سے کرم ہی کے سنی اکثریتی علاقے صدہ میں پناہ گزینوں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
یہی کہانی صدہ بازار میں رہنے والے شیعہ مسلک کے احمد عباس کی ہے جو 80 کی دہائی میں ہونےوالے فسادات کے بعد سنی اکثریتی علاقے میں اپنا گھر اور زمینیں چھوڑ کر پاڑہ چنار میں گزشتہ چار دہائیوں سے رہ رہے ہیں۔
ضلع کرم میں چند دنوں سے جاری امن و امان کی خراب صورتِ حال پر محمد رمضان اور احمد عباس دونوں تشویش میں مبتلا ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ جب تک کرم میں فرقہ وارانہ فسادات کی وجہ سے بے دخل ہونے والے سنی اور شیعہ قبائل کے اراضی کے تنازعات حل نہیں ہوں گے، یہ تنازعات فرقہ وارانہ رنگ اختیار کرتے رہیں گے۔
احمد عباس نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ـ "سابق قبائلی اضلاع کے برعکس ضلع کرم میں برطانوی راج کے دور سے ہی لینڈ ریونیو کا ریکارڈ موجود ہے مگر اس کے باوجود حکومت سنی اور شیعہ قبائل کے مابین جاری زمینوں کے تنازعات کو حل کرنے میں خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔"
ان کے بقول “حکومت کے اس رویے کے سبب گزشتہ کئی برسوں سے دونوں جانب جھڑپوں میں آزادانہ بھاری ہتھیاروں کا استعمال ہوتا رہتا ہے جس سے سینکڑوں جانیں جاچکی ہیں۔"
محمد رمضان بھی احمد عباس سے متفق ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ “کرم میں جب یہ زمینی تنازعات فرقہ وارانہ رنگ اختیار کرتے ہیں تو اس آگ کی تپش کو کرم سے باہر اورکزئئ، ہنگو اور کوہاٹ کے پڑوسی اضلاع میں آباد سنی اور شیعہ کمیونٹیز بھی محسوس کرتے ہیں۔"
کرم میں اب کشیدگی کی وجہ کیا بنی؟
حالیہ تناؤ سات جولائی کو اپر کرم کے علاقے بوشہرہ اور ڈنڈار کے قبائل کے مابین ایک زمینی تنازعے سے اس وقت شروع ہوا جب شاملاتی زمین پر ایک قبیلے کی جانب سے شروع کیے گئے تعمیراتی کام کو دوسرے قبیلے کے افراد نے روکنے کی کوشش کی اور یوں مسلح جھڑپیں شروع ہو گئیں ۔
برطانوی راج میں پہاڑوں یا دریا کے کنارے غیر آباد زمینوں کو شاملات کا نام دے کر اس کے لیے اصول مرتب کیے گئے تھے۔ یہ زمینیں قبائل کی مشترکہ ہوتی ہیں جیسے جنگلات، چراگاہ، پہاڑ یا دریا کے کنارے غیر آباد زمینیں، جنازگاہ اور قبرستان وغیرہ۔
یہ تصادم پاڑہ چنار کے دیگر علاقوں پیواڑ اور تری منگل کے علاقوں تک جا پہنچا جہاں متحارب قبائل کے مابین جھڑپیں شروع ہوئی۔اس کے ساتھ ساتھ لوئر کرم کے علاقوں میرو کس اور بالش خیل میں بھی جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوا۔
خیال رہے کہ مئی میں پیواڑ میں ایک چلتی گاڑی پر فائرنگ سے محمد شریف نامی اُستاد کی ہلاکت ہوئی تھی جن کا تعلق سنی مسلک سے تھا۔
اس واقعے کے کچھ گھنٹوں بعد تری مینگل میں ایک اسکول میں میٹرک کے سالانہ امتحانات کے دوران ڈیوٹی پر موجود چار اساتذہ اور تین مزدوروں کو شیعہ ہونے کی تصدیق کرنے کے بعد فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔فائرنگ کے یہ دونوں واقعات آٹھ کلومیٹر کے فاصلے کے اندر ہی رونما ہوئے تھے۔
کرم کے سنئیر صحافی ہدایت علی پاسدار کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں انتظامیہ اور مقامی عمائدین کی کوششوں سے جب ایک علاقے میں فائر بندی ہوتی ہے تو دوسری جگہ جھڑپیں شروع ہو جاتی ہیں۔
بدھ کی صبح جب کرم کے صحافیوں اور سیاسی رہنماؤں سے بات چیت کی گئی تو معلوم ہوا کہ کرم میں تناؤ ختم کرنے کے لیے کوہاٹ، ہنگو اور اورکزئی کے قبائلی عمائدین کی مداخلت کے بعد حالات بہتر ہوئے ہیں مگر اب بھی کچھ علاقوں میں حالات کشیدہ ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک کرم میں حالیہ جھڑپوں میں کم از کم 10 افراد ہلاک اور 40 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔
چند ہفتوں میں شروع ہونے والا محرم کا مہینہ کرم میں انتہائی حساس سمجھا جاتا ہے۔ اسی لیے انتظامیہ کی کوشش ہے کہ جلد از جلد متحارب قبائل کو پرامن رہنے پر راضی کیا جاسکے۔”
کرم، فرقہ وارانہ تشدد کے حوالے سے حساس ضلع
چند سال قبل خیبر پختونخوا صوبے میں ضم ہونے والا قبائلی ضلع کرم ملکی سطح پر فرقہ وارانہ فسادات کے حوالے سے حساس خطوں میں سے ایک ہے۔ کرم کی سرحدیں افغانستان کے صوبوں خوست ،ننگرہار اور پکتیاکے ساتھ ساتھ پاکستان کے قبائلی اضلاع خیبر، اورکزئی اور شمالی وزیرستان سے ملتی ہیں۔
قبائلی علاقوں میں کرم وہ پہلا علاقہ ہے جہاں پر سب سے پہلے فرقہ وارانہ فسادات کے نام پر سنی اور شیعہ آبادی کے درمیان بدترین لڑائیوں کی ابتدا ہوئی۔ خیبر پختونخوا صوبے کا یہ واحد ضلع ہے جہاں شیعہ آبادی بڑی تعداد میں آباد ہے۔
اسلام آباد میں قائم انٹرنیشنل ریسرچ کونسل برائے مذہبی امور نامی ادارے سے وابستہ تحمید جان ازہری ضلع کرم میں مسلکی ہم آہنگی کی کوششوں میں فعال رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک جانب ضلع کرم میں شیعہ سنی فرقہ وارانہ تناؤ کی شدت کافی زیادہ ہے جب کہ دوسری جانب ضلع میں سکونت پذیر قبیلوں کے مابین برسوں سے زمینی تنازعات چلے آ رہے ہیں۔
بے گھر خاندان
مقامی عمائدین اور ماہرین کہتے ہیں کہ شروع میں کرم ضلع میں شیعہ سنی آبادی ایک دوسرے کے ساتھ ایک ہی علاقے میں صدیوں سے ساتھ ساتھ رہے ہیں۔
تحمید جان ازہری کہتے ہیں کہ کرم میں سنی اور شیعہ قبائل میں اکثریت اور اقلیت کا پہلو پہلے سے بھی موجود تھا مثلاً اپر کرم یعنی پاڑہ چنار شیعہ اکثریتی علاقہ تھا۔ لیکن ان کے ساتھ سنی بھی رہتے تھے جب کہ لوئر کرم سنی اکثریتی آبادی تھی مگر شیعہ بھی ان کے ساتھ رہتے تھے۔ وسطی کرم پہلے ہی سے تقریباًسنیوں کا علاقہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے کئی برسوں سے شیعہ سنی تنازعات کی وجہ ایک دوسرے کے علاقوں سے مکمل انخلا ہے۔
اپر کرم خصوصاً پاڑہ چنار سے تقریباً تمام سنی ہجرت کر چکے ہیں جب کہ لوئر کرم خصوصاً صدا سے تمام شیعہ پاڑہ چنار منتقل ہو چکے ہیں جب کہ دونوں گروپوں کی زمینیں اور دکانیں وغیرہ بغیر کسی قیمت کی ادائیگی کے ایک دوسرے کے قبضے میں آ چکی ہیں۔
پاڑہ چنار میں 2007 اور 2008 میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے نتیجے میں تقریباً ایک ہزار کے قریب خاندان نقل مکانی پر مجبور ہوئے تھے۔ ان میں سے بیشتر متاثرین کوہاٹ، ہنگو ، پشاور، ایبٹ آباد اور اسلام آباد میں بدستور پناہ لینے پر مجبور ہیں۔
خیال رہے کہ 2007 سے 2012 تک کرم میں فرقہ وارانہ فسادات کے سبب اپر کرم میں بسنے والے لوگ پاکستان کے دوسرے حصوں میں جانے کے لیے پہلے افغانستان جاتے تھے اور وہا ں سے طورخم کے ذریعے دوبارہ پاکستان میں داخل ہوتے تھے۔
اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ان علاقوں کو پشاور اور بنوں جیسے شہروں سے ملانے والی واحد سڑک لوئر کرم سے گزرتی تھی جہاں کے سنّی باشندوں نے اسے اپر اور وسطی کرم میں رہنے والے شیعہ قبائل کے لیے بند کر رکھا تھا۔ بالآخر سیکیورٹی فورسز نے سڑک کو آمد ورفت کے لیے کھول کر لوگوں کے تحفظ کے لیے نفری بھی تعینات کر دی۔
محمد رمضان اور احمد عباس کہتے ہیں کہ پاڑہ چنار اور صدہ سے اپنے ہی گھروں سے بےگھر ہونے کے بعد ان کی زندگیاں مسلسل مشکل ہوتی جا رہی ہیں۔
محمد رمضان کے بقول پاڑہ چنار میں ان کی دکان خوب چلتی تھی جس سے ان کی زندگی کافی اچھی گزرتی تھی لیکن فرقہ وارانہ فسادات کی وجہ سے اپنے ہی گھر اور کاروبار سے بے دخل ہونے کی وجہ سے انہیں کافی معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ “اب میں مقروض ہوں مگر اسی امید سے زندگی گزار رہا ہوں کہ بہت جلد اپنے گھر اور دکان میں واپس جاؤں گا۔"
احمد عباس کہتے ہیں کہ گاہے بگاہے فرقہ وارانہ فسادات کی وجہ سے ان کے خاندان کے لیے صدہ میں رہنا مشکل ہو گا مگر حکومت کوئی ایسی کمیٹی تشکیل دے جو بے دخل شیعہ اور سنی قبائل کی زمینوں کے مارکیٹ ریٹ لگائے اور اسی لحاظ سے اُنہیں متبادل اراضی دے۔
مری معاہدہ
پاڑہ چنار اور صدہ سے بے دخل ہونے والے خاندانوں کی واپسی کو یقینی بنانے کے لیے حکومت کی طرف سے اکتوبر 2008 میں مری میں ایک امن معاہدہ بھی کیا گیا۔
معاہدے کے تحت قبضے میں لیے گئے علاقے خالی کرانے کے ساتھ ساتھ علاقے چھوڑ کر جانے والے افراد کی دوبارہ آباد کاری قانون اور علاقے کے رواج کے مطابق کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ مگر اس معاہدے پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ یوں یہ معاملہ اب تک حل نہیں کیا جا سکا ہے۔
کرم کی ضلعی انتظامیہ کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ مری معاہدے پر عمل درآمد اور بےگھر خاندانوں کی اپنے اپنے علاقوں میں واپسی امن و امان اور فریقین کے اعتماد کی بحالی کے بغیر ممکن نہیں۔
نام نہ شائع کرنے کی درخواست پر انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایاکہ ماضی میں کرم میں ہونے والے بیشتر واقعات فرقہ وارانہ نوعیت کے نہیں تھے ۔لیکن انہیں دانستہ طور پر مسلک کی بنیاد پر لڑائی کا رنگ دیا گیا جس سے علاقے میں قبائل کے مابین نفرتیں اپنی حدیں عبور کرچکی ہیں جنہیں اب ختم کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2008 کے بعد کرم میں رواں سال مسلک کی بنیاد پر جھڑپوں میں اضافہ دیکھا گیا ۔
ان کا کہنا ہے کہ بے دخل ہونے والے خاندانوں کے ساتھ ساتھ کرم میں 20 سے 25 ایسی اراضیاں ہیں جن پر کئی برسوں سے تنازعات چل رہے ہیں جو دونوں مسالک کے قبائل کے مابین تناؤ کا سبب بن رہی ہے۔
خیبر پختونخوا حکومت کے محکمہ داخلہ و قبائلی امور کی جانب سے منگل کو جاری کردہ نوٹی فکیشن کے مطابق کرم میں آٹھ ایسی اراضیاں ہیں جن پر قیام پاکستان سے قبل سے تنازعات چلے آ رہے ہیں ۔