امریکی فوج کے مشرق وسطی کے لیے کمانڈر نے کہا ہے کہ امریکہ ایسی کوئی منصوبہ بندی نہیں کر رہا کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد فضائی حملوں میں افغان فورسز کی مدد کی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ انخلا کے بعد انسداد دہشتگردی سے متعلق فضائی حملے محدود ہوں گے اور ان اہداف پر ہوں گے جہاں سے امریکہ یا اس کے اتحادیوں کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہو گی۔
سینٹکام کے کمانڈر جنرل فرینک میکنزی نے وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں ان خیالات کا اظہار ایسے وقت میں کیا جب وہ بیرون ملک روانگی کے لیے فوجی طیارے میں سوار تھے۔
’’ افغانستان سے نکلنے کے بعد اگر ہم وہاں کوئی بھی فضائی حملہ کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہو گی۔ حملے سے پہلے ہمیں یہ پتا چلنا ضروری ہے کہ کون امریکہ کی سرزمین پر، ہمارے اتحادیوں یا شراکت داروں پر حملہ کرنا چاہتا ہے‘‘۔
جنرل میکینزی کی جانب سے افغانستان سے انخلا کے بعد اس شورش زدہ ملک میں امریکہ کے کردار کی غیر مبہم وضاحت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب وہاں داعش اور القاعدہ کے خلاف حملوں میں کمی آئی ہے اور پینٹاگان چین اور روس کے ساتھ تقابل کو اپنی ترجیح کے طور پر بیان کر رہا ہے۔
جنرل میکینزی نے بتایا کہ مشرق وسطی میں ان کی فوجیوں کی تعداد اب چالیس ہزار ہے۔ اب سے اٹھارہ ماہ قبل یہ تعداد ساٹھ سے اسی ہزار کے قریب تھی اور اس عرصے میں واضح کمی آئی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد افغانستان سے امریکی فوجوں کے مکمل انخلا اور یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف سعودی قیادت والے فوجی حملوں کے لیے مدد میں کمی کا حکم دیا تھا۔ پینٹاگان نے اس کے بعد مشرق وسطی اور دیگر ممالک سے اپنے بحری جہاز، اسلحہ کے نظام اور فوجوں کو نکالنے کی تدبیر بھی کی ہے۔
جنرل میکینزی نے بتایا کہ افغانستان میں ایک بڑے آپریشن کے باعث وسائل پر دباؤ تھا اور اب یہ فوجی اور ہتھیار پوری دنیا میں بروئے کار لائے جا سکتے ہیں۔
انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وسائل پر دباؤ اب بھی رہے گا کیونکہ امریکی ایئر کرافٹ افغانستان سے انٹیلی جنس کے حصول، نگرانی اور وہاں دہشتگردوں پر دباؤ برقرار رکھنے کے لیے ہزاروں میل دور موجود اڈوں سے پرواز کریں گے۔
افغانستان کے لیے منصوبہ بندی
ماہرین اور کئی ایک سابق کمانڈر افغانستان سے انخلا کے بعد کے منصوبوں کی تفصیل سامنے نہ آنے پر تشویش کا اظہار کرتے آ رہے ہیں۔
جنرل میکنزی اس بارے میں کہتے ہیں،’’پیشگی منصوبہ بندی کی جا چکی ہے‘‘
انہوں نے محکمہ دفاع کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس بارے میں مزید معلومات جاری کرے۔
سینٹکام کے سابق کمانڈر ریٹائرڈ جنرل جوزف ووٹل نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس بارے میں بہتر اور جامع پروگرام دیکھنا چاہیں گے کہ افغانستان سے انخلا کیسا ہو گا تاکہ افغانستان کی حکومت اور افغان فورسز کو، جس قدر ممکن ہو، بہتر حال میں چھوڑ کر انخلا کا عمل مکمل کیا جائے۔
انہوں نے 2011 میں عراق سے امریکی افواج کے انخلا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہاں ایک سوچی سمجھی حکمت عملی تھی جس کے نتیجے میں وہاں ایک بڑا امریکی سفارتخانہ کام کر رہا تھا اور عراق میں سپیشل فورسز کی موجودگی کا متقاضی سکیورٹی تعاون کا ایک معاہدہ بھی موجود تھا۔
SEE ALSO: افغان امن عمل ناکام ہوا تو پاکستان ذمے دار نہیں ہو گا: شاہ محمود قریشیجنرل میکینزی کے مطابق، امریکہ افغان فضائی فورسز کی مدد کرے گا۔ فضائی طاقت طالبان کے خلاف سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ اس بارے میں ورچوئل یعنی آن لائن مشاورت رہے گی اور اسی طرح ایرکرافٹس کے پرزوں کو ملک کے اندر باہر لے جایا جا سکے گا۔
ترکی کا مستقبل میں کردار
ایک سوال جس کا جواب نہیں ملا ہے، وہ یہ ہے کہ کابل کے ہوائی اڈے کا کیسے دفاع کیا جائے گا۔ یہ ائیرپورٹ سویلین اور فوجی جہازوں کی آمدو رفت میں مدد گار ہے۔
نیٹو اور ترکی کے کئی سو پر مشتمل فوجی اس ائیرپورٹ کی حفاظت پر مامور رہے ہیں، تاہم اب یہ واضح نہیں ہے کہ آیا نیٹو کے انخلا کے بعد یہ فوجی وہاں تعینات رہیں گے؟۔ اس چیز نے خدشات پیدا کیے ہیں کہ سفارتکار افغانستان میں محفوظ انداز میں آمد و رفت جاری نہیں رکھ سکیں گے۔
جنرل میکینزی نے کہا کہ امریکی فوج اس مسئلے پر اب بھی ترک شراکت داروں کے ساتھ مشاورت جاری رکھے ہوئے ہے۔
خیال کیا جا رہا تھا کہ پیر کے روز برسلز میں صدر جو بائیڈن اور ترک صدر رجب طیب اردوان کی ملاقات میں کابل ائیرپورٹ کی سکیورٹی پر بھی تبادلہ خیال ایجنڈے کا حصہ رہے گا۔
رپورٹوں کے مطابق صدر اردوان کابل ائیرپورٹ سکیورٹی کے بدلے میں رعایات چاہتے ہیں، بشمول امریکہ کے ساتھ ایک ایسے معاہدے کے، جو انقرہ کو روسی ساختہ S-400 دفاعی نظام برقرار رکھنے کی اجازت دیتا ہو۔ ترکی نیٹو کے ایف۔35 جہازوں جیسے ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ روس کا ڈیفینس سسٹم بھی اپنے استعمال میں رکھنا چاہتا ہے، جس پر امریکہ کو اعتراض ہے۔