طالبان نے کابل ایئرپورٹ کی سیکیورٹی کے لیے ترکی کی خدمات لینے کی تجویز مسترد کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ترک افواج کو بھی 2020 کے معاہدے کے تحت افغانستان سے انخلا کرنا ہو گا۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق قطر کے شہر دوحہ میں موجود طالبان کے ترجمان، سہیل شاہین نے امریکہ اور مغربی ملکوں کے عسکری اتحاد نیٹو افواج کے انخلا کے بعد بھی افغانستان میں ترک افواج کی موجودگی کی تجویز کو مسترد کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ترکی نیٹو اتحاد کا رکن ہے اس لیے 29 فروری 2020 کو امریکہ سے ہونے والے معاہدے کے تحت تمام غیر ملکی افواج کو افغانستان سے نکلنا ہے۔
ترک حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے مئی میں نیٹو کے ایک اجلاس کے دوران افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد کابل ایئرپورٹ کی سیکیورٹی کی ذمہ داریوں کی پیش کش کی تھی۔
اس پیش کش کو مسترد کرتے ہوئے طالبان ترجمان نے مزید کہا کہ ترکی ایک عظیم اسلامی ملک ہے اور افغانستان کے اس کے ساتھ تاریخی تعلقات ہیں۔
ترجمان کے بقول، "ہمیں امید ہے کہ مستقبل میں افغانستان میں ایک نئی اسلامی حکومت کی تشکیل کے بعد ترکی اور افغانستان کے درمیان اچھے تعلقات ہوں گے۔"
مبصرین کا کہنا ہے کہ کابل کے ہوائی اڈے کی حفاظت حوالے سے ترکی کو دیگر قوتوں کے ساتھ ساتھ طالبان کو بھی اعتماد میں لینا ہو گا۔ بصورت دیگر افغانستان میں لڑائی کا دائرہ وسیع ہونے کا اندیشہ ہے۔
اس حوالے سے وائس آف امریکہ کے نمائندے نذر الاسلام سے گفتگو کرتے ہوئے افغان امور کے ماہر رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں ہونے والے معاہدے میں یہ طے پایا تھا کہ تمام غیر ملکی افواج اور ان کے پرائیویٹ کنٹریکٹرز افغانستان سے نکل جائیں گے۔ ان کے مطابق ایسے میں ترکی کی افواج کی افغانستان میں موجودگی خطرے سے خالی نہیں ہو گی۔
رحیم اللہ یوسف زئی کے مطابق ترکی چوں کہ نیٹو کا رکن ہے۔ اور اس کی فوج بھی افغانستان میں تعینات ہیں۔ اس لیے طالبان ترکی سے بھی اپنی افواج کو افغانستان سے نکالنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اور یہ بہت ہی عجیب صورتِ حال ہو گی اگر باقی ممالک اپنی افواج افغانستان سے نکالتے ہیں اور ترکی کی فوج افغانستان میں ہی رہتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ دیگر قوتوں کے ساتھ ساتھ اگر اس معاملے میں طالبان کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا تو تصادم کا خطرہ موجود ہے۔ کیوں کہ طالبان اگر ایئر پورٹ پر حملہ آور ہوتے ہیں تو نتیجے میں ترکی کی فوج دفاعی کارروائی پر مجبور ہو گی اور امریکہ بھی اسے فضائی مدد کے لیے آگے بڑھے گا جس کے بعد قیامِ امن کی تمام کوششیں دم توڑ دیں گی اور افغانستان میں لڑائی کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔
رحیم اللہ یوسف زئی نے کہا کہ ترکی کی خواہش ہے کہ وہ استنبول کانفرنس کے ذریعے افغانستان میں قیامِ امن کے حوالے سے کانفرنس منعقد کرے۔ البتہ افغانستان میں فوجیوں کی موجودگی کے باعث اس کی غیر جانب داری پر بھی سوال اٹھائے جائیں گے۔
یاد رہے کہ دوحہ امن معاہدے کے مطابق امریکہ اور نیٹو افواج نے افغانستان سے یکم مئی کو نکلنا تھا تاہم امریکہ کے صدر جو بائیڈن کے اعلان کے مطابق تمام افواج کا انخلا 11 ستمبر تک مکمل کیا جائے گا۔ حال ہی میں پینٹاگون کا کہنا تھا کہ امریکہ کا افغانستان سے 50 فی صد انخلا مکمل ہو چکا ہے۔
مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ افغانستان میں اس وقت طالبان اور حکومتی فورسز کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے۔ طالبان نے 17 اضلاع کا کنٹرول سنبھال چکے ہیں۔
اس حوالے سے کابل میں مقیم سیکیورٹی امور کے تجزیہ کار فہیم سادات کا وائس آف امریکہ کے نمائندے نذر الاسلام سے گفتگو کرتے ہوئے کا کہنا ہے کہ افغانستان سے امریکہ اور نیٹو افواج کے انخلا کے اعلان کے بعد ایک خلا پیدا ہو گیا ہے جس کے بعد طالبان نے اپنے حملوں میں اضافہ کیا ہے۔
فہیم سادات کے مطابق طالبان نے اگرچہ ابھی تک بڑے شہروں کی جانب پیش رفت سے اجتناب کیا ہے۔ البتہ انہوں نے ایسے متعدد اضلاع اور بڑی شاہراہوں والے علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے جسے وہ مستقبل میں بڑی کارروائیوں کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
بڑھتی ہوئی پر تشدد کارروائیوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ طالبان اپنے جنگجوؤں کے حوصلوں کو کم نہیں کرنا چاہتے۔ دوسرا اگر افغانستان میں طالبان اور حکومتی نمائندوں کے درمیان بات چیت میں پیش رفت سامنے آتی ہے تو طالبان اپنی فتوحات کو اپنی طاقت کے طور پر سامنے لا سکتے ہیں۔
علاوہ ازیں خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق امریکہ کے محکمۂ خارجہ اور ترکی کی وزارتِ خارجہ نے طالبان ترجمان کے حالیہ بیان پر فوری طور پر کوئی ردِ عمل نہیں دیا ہے۔
البتہ، پینٹاگون نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکہ کے وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے جمعرات کو ترک ہم منصب ہلوسی آکار سے بات کی ہے اور دونوں رہنماؤں نے دو طرفہ تعاون اور خطے کے مسائل پر گفتگو کی تھی۔ تاہم، پینٹاگون نے اپنے بیان میں افغانستان کا ذکر نہیں کیا۔
پینٹاگون کا کہنا ہے کہ امریکہ کا افغانستان سے 50 فی صد انخلا مکمل ہو چکا ہے جب کہ ترکی کے اب بھی 500 فوجی افغانستان میں مقامی فورسز کو تربیت دینے کے لیے موجود ہیں۔ اس طرح افغانستان میں اس وقت سب سے زیادہ ترکی کے فوجی موجود ہیں۔
نیٹو کے اتحاد میں شامل آسٹریلیا نے سیکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر گزشتہ ماہ افغانستان میں موجود اپنا سفارت خانہ بند کر دیا تھا۔
یاد رہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت تمام غیر ملکی افواج کو یکم مئی 2021 کو افغانستان سے انخلا کرنا تھا، لیکن امریکہ کے موجودہ صدر جو بائیڈن نے اپریل میں اعلان کیا تھا کہ افغانستان سے فوجی انخلا 11 ستمبر تک کر لیا جائے گا۔
یاد رہے کہ 11 ستمبر کو امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کو 20 برس مکمل ہو جائیں گے۔ القاعدہ کے ان حملوں کے بعد امریکہ نے افغانستان پر چڑھائی کرتے ہوئے طالبان کی حکومت کا خاتمہ کیا تھا۔