چارسدہ یونیورسٹی پر دہشت گردوں کے حملے میں ہلاک ہونے والا نوجوان ساجد حسین غریب والدین کا لاڈلا بیٹا تھا, جسے اہل خانہ گھر کے زیورات بیچ کر اور قرضے لے کر تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے۔
ساجد حسین اپنے چار دیگر طالب علم ساتھیوں کے ساتھ یونیورسٹی ہوسٹل کے ایک کمرے میں رہائش پزیر تھا کہ اچانک بدھ کی صبح دہشت گرد فائرنگ کرتے ہوئے کمرے میں گھس آئے اور انھوں نے ساجد سمیت کمرے میں موجود تین طلبا کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
مقتول ساجد حسین کے والد ضمیر شاہ اپنے بیٹے کی المناک ہلاکت پر انتہائی صدمے اور بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے، سوال کر رہے ہیں کہ ان کے بچے کو کیوں مارا گیا۔ وہ تو بے گناہ تھا، اور اس کی تو کسی سے دشمنی بھی نہ تھی۔
ساجد کے بڑے بھائی فرزند حسین نے وائس آف امریکہ کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ ان کا چھوٹا بھائی گھر کا سب سے لاڈلا بچہ تھا، جسے گھر کے زیورات بیچ کر اور قرضے لے کر یونیورسٹی کی تعلیم دلوائی جا رہی تھی۔
انھوں نے کہا کہ ساجد نےسات سمسٹر مکمل کرکے ابھی کل ہی آخری سمسٹر میں داخلہ لیا تھا۔ اس داخلے کے لئے ہم نے قرضے لے کر اسے رقم بھجوائی تھی۔ ہم نے ساجد کی صورت میں خواب دیکھا تھا۔ لیکن، شائد اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
مقتول کے بڑے بھائی فرزند حسین نے کہا کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ کوئی ہمارے خواب کو اس طرح چکنا چور کردے گا۔ انھوں نے ارباب اختیار سے سوال کیا کہ یہ قتل و غارت کب تک جاری رہے گا اور کتنے گھروں کے چراغ ابھی اور بجھیں گے؟
دہشت گردی کے شکار ساجد حسین کے والد اور بھائی کے وائس آف امریکہ کو دئے گئے انٹرویو کی تفیصلات کے لئے درج ذیل لنک کلک کیجئے۔
Your browser doesn’t support HTML5