وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی کا کہنا ہے کہ یہ آپریشن فوج کے بجائے رینجرز کرے گی کیوں کہ تمام سیاسی پارٹیز فوج کو طلب کرنے پر متفق نہیں۔
پچھلے کئی روز سے کراچی کی صورتحال پر متوقع وفاقی کابینہ کے جس اجلاس کے چرچے تھے، آخر کار بدھ کو دو گھنٹے تک جاری رہنے کے بعد اختتام پذیر ہوا۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی کا کہنا ہے کہ کراچی میں دہشت گردوں، ٹارگٹ کلرز، جرائم پیشہ عناصر اور بھتہ خوروں کیخلاف ٹارگٹڈ آپریشن آئندہ 48 گھنٹوں کے دوران شروع ہوجائے گا۔ تاہم یہ آپریشن فوج کے بجائے رینجرز کرے گی کیوں کہ تمام سیاسی پارٹیز فوج کو طلب کرنے پر متفق نہیں۔
چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ کابینہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ آپریشن تمام سیاسی مصالحتوں سے پاک ہوگا اور اس میں خصوصی طور پر یہ خیال رکھا جائے گا کہ کوئی بے گناہ شخص اس آپریشن کا نشانہ نہ بنے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آپریشن کے دوران پولیس، رینجرز کو ہر ممکن معاونت فراہم کرنے کی ذمے دار ہوگی۔
قیام ِامن کے لئے کمیٹیوں کی تشکیل
میڈیا کو اجلاس کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی سربراہی میں ایک آپریشنل کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس میں ڈی جی رینجرز، آئی جی سندھ اور نادرا و مختلف سیکورٹی ایجنسیز کے نمائندے شامل ہوں گے۔ یہ افراد ہفتہ وار اجلاس منعقد کریں گے جس میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف کی جانے والی کارروائی کا جائزہ لیا جائے گا۔ یہی کمیٹی رینجرز کی جانب سے انویسٹی گیشن اور آپریشن کے حوالے سے پالیسی بھی بنائے گی۔
وفاقی وزیر کے مطابق مسائل کا قانونی حل نکالنے کیلئے وفاقی وزیر زاہد حامد کی سربراہی میں ایک اور کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس میں ایم کیو ایم کے سینیٹر فروغ نسیم اور سندھ کے پراسیکیوٹر شہادت اعوان شامل ہوں گے۔ تیسری کمیٹی سول سوسائٹی، معزز شہریوں اور سینئر میڈیا پرسنز پر مشتمل ہوگی جو شہرکے حالات اور آپریشن پر نظر رکھے گی۔
قیام ِامن کے لئے صوبائی حکومت آگے آئے
وزیر ِداخلہ کے مطابق کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ آئی جی سندھ اور چیف سیکرٹری سندھ سمیت کسی بھی اعلیٰ افسر کو تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ سندھ کی عوام کا مینڈیٹ موجودہ صوبائی حکومت کے پاس ہے، لہذا قیام ِامن کے لئے اسے سامنے آنا ہوگا۔
حساس نوعیت کے فیصلے
چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ ڈی جی رینجرز کراچی میں قیام ِامن کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات کے حوالے سے کچھ تحفظات رکھتے تھے تاہم کابینہ کے اجلاس میں ان تحفظات کو دور کر دیا گیا ہے۔ قیام ِامن کے لئے رینجرز کو گرفتاریوں اور چھاپوں کے بعد تفتیش کے اختیارات بھی دے دیئے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کابینہ اجلاس میں مزید کچھ حساس نوعیت کے فیصلے کیے گئے ہیں لیکن انہیں میڈیا پر نہیں بتایاجاسکتا تاہم ان کی تکمیل پر سب لوگ ان سے آگاہ ہوجائیں گے۔
پولیس اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کافیصلہ
چوہدری نثار نے کابینہ اجلاس میں ہونے والے ایک اور فیصلے سے میڈیا کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ جن پولیس اہلکاروں کے ٹارگٹ کلرز یا دہشت گردوں سے روابط ثابت ہو گئے، انہیں ملازمت سے فارغ کر کے ان کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے گی۔
غیر رجسٹرڈ موبائل سمز، جرائم کی بڑی وجہ
وفاقی وزیر ِداخلہ چوہدری نثار نے جرائم کی جہاں بہت سی وجوہات بیان کیں وہیں چالیس لاکھ سے زائد غیر رجسٹرڈ موبائل سموں کو بھی جرائم کی ایک بڑی وجہ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وزارت ِداخلہ موبائل کمپنیوں کو قانون کا پابند بنانے کیلئے اقدامات کر رہی ہے۔
سیاسی مبصرین اور تجزیہ نگار کیا کہتے ہیں؟
وفاقی کابینہ کے مذکورہ بالا فیصلوں پر آزاد خیال سیاسی مبصرین، سیاسی تجزیہ نگار اور کراچی کے مسائل پر گہری نظر رکھنے والے افراد نے وائس آف امریکہ کے نمائندے سے تبادلہ ِخیال میں اطمینان کا اظہار نہیں کیا۔ مبصرین کی مجموعی رائے یہ ہے کہ رینجرز تو کراچی میں کئی عشروں سے شہر کے ہر علاقے میں موجود ہے، حالات گواہ ہیں کہ اس کی موجودگی کے باوجود جرائم ہوتے رہے ہیں لہذا رینجرز کی جانب سے ہونے والا ممکنہ آپریشن بے اثر ثابت ہوگا۔
کچھ ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ امن کے لئے کمیٹیاں بنانا حکومتوں کی ’پرانی عادت‘ رہی ہے، ان سے کبھی مسئلے حل نہیں ہوئے۔حقیقت یہ ہے کہ امن کے قیام کی ذمے داری ایک مرتبہ پھر پی پی کے کاندھوں پر یہ کہا کر ڈال دی ہے کہ یہاں کا مینڈیٹ پیپلز پارٹی کے پاس ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر پی پی کی اسی قیادت نے حالات سنبھالنا ہوتے تو پانچ سال میں جو کچھ ہوا، اسے پی پی حکومت روک سکتی تھی جبکہ اس وقت وفاق میں بھی اسی کی حکومت تھی لیکن اس وقت کچھ نہیں ہوا تو اب کیا ہوگا؟
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی کا کہنا ہے کہ کراچی میں دہشت گردوں، ٹارگٹ کلرز، جرائم پیشہ عناصر اور بھتہ خوروں کیخلاف ٹارگٹڈ آپریشن آئندہ 48 گھنٹوں کے دوران شروع ہوجائے گا۔ تاہم یہ آپریشن فوج کے بجائے رینجرز کرے گی کیوں کہ تمام سیاسی پارٹیز فوج کو طلب کرنے پر متفق نہیں۔
چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ کابینہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ آپریشن تمام سیاسی مصالحتوں سے پاک ہوگا اور اس میں خصوصی طور پر یہ خیال رکھا جائے گا کہ کوئی بے گناہ شخص اس آپریشن کا نشانہ نہ بنے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آپریشن کے دوران پولیس، رینجرز کو ہر ممکن معاونت فراہم کرنے کی ذمے دار ہوگی۔
قیام ِامن کے لئے کمیٹیوں کی تشکیل
میڈیا کو اجلاس کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی سربراہی میں ایک آپریشنل کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس میں ڈی جی رینجرز، آئی جی سندھ اور نادرا و مختلف سیکورٹی ایجنسیز کے نمائندے شامل ہوں گے۔ یہ افراد ہفتہ وار اجلاس منعقد کریں گے جس میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف کی جانے والی کارروائی کا جائزہ لیا جائے گا۔ یہی کمیٹی رینجرز کی جانب سے انویسٹی گیشن اور آپریشن کے حوالے سے پالیسی بھی بنائے گی۔
وفاقی وزیر کے مطابق مسائل کا قانونی حل نکالنے کیلئے وفاقی وزیر زاہد حامد کی سربراہی میں ایک اور کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس میں ایم کیو ایم کے سینیٹر فروغ نسیم اور سندھ کے پراسیکیوٹر شہادت اعوان شامل ہوں گے۔ تیسری کمیٹی سول سوسائٹی، معزز شہریوں اور سینئر میڈیا پرسنز پر مشتمل ہوگی جو شہرکے حالات اور آپریشن پر نظر رکھے گی۔
قیام ِامن کے لئے صوبائی حکومت آگے آئے
وزیر ِداخلہ کے مطابق کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ آئی جی سندھ اور چیف سیکرٹری سندھ سمیت کسی بھی اعلیٰ افسر کو تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ سندھ کی عوام کا مینڈیٹ موجودہ صوبائی حکومت کے پاس ہے، لہذا قیام ِامن کے لئے اسے سامنے آنا ہوگا۔
حساس نوعیت کے فیصلے
چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ ڈی جی رینجرز کراچی میں قیام ِامن کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات کے حوالے سے کچھ تحفظات رکھتے تھے تاہم کابینہ کے اجلاس میں ان تحفظات کو دور کر دیا گیا ہے۔ قیام ِامن کے لئے رینجرز کو گرفتاریوں اور چھاپوں کے بعد تفتیش کے اختیارات بھی دے دیئے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کابینہ اجلاس میں مزید کچھ حساس نوعیت کے فیصلے کیے گئے ہیں لیکن انہیں میڈیا پر نہیں بتایاجاسکتا تاہم ان کی تکمیل پر سب لوگ ان سے آگاہ ہوجائیں گے۔
پولیس اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کافیصلہ
چوہدری نثار نے کابینہ اجلاس میں ہونے والے ایک اور فیصلے سے میڈیا کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ جن پولیس اہلکاروں کے ٹارگٹ کلرز یا دہشت گردوں سے روابط ثابت ہو گئے، انہیں ملازمت سے فارغ کر کے ان کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے گی۔
غیر رجسٹرڈ موبائل سمز، جرائم کی بڑی وجہ
وفاقی وزیر ِداخلہ چوہدری نثار نے جرائم کی جہاں بہت سی وجوہات بیان کیں وہیں چالیس لاکھ سے زائد غیر رجسٹرڈ موبائل سموں کو بھی جرائم کی ایک بڑی وجہ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وزارت ِداخلہ موبائل کمپنیوں کو قانون کا پابند بنانے کیلئے اقدامات کر رہی ہے۔
سیاسی مبصرین اور تجزیہ نگار کیا کہتے ہیں؟
وفاقی کابینہ کے مذکورہ بالا فیصلوں پر آزاد خیال سیاسی مبصرین، سیاسی تجزیہ نگار اور کراچی کے مسائل پر گہری نظر رکھنے والے افراد نے وائس آف امریکہ کے نمائندے سے تبادلہ ِخیال میں اطمینان کا اظہار نہیں کیا۔ مبصرین کی مجموعی رائے یہ ہے کہ رینجرز تو کراچی میں کئی عشروں سے شہر کے ہر علاقے میں موجود ہے، حالات گواہ ہیں کہ اس کی موجودگی کے باوجود جرائم ہوتے رہے ہیں لہذا رینجرز کی جانب سے ہونے والا ممکنہ آپریشن بے اثر ثابت ہوگا۔
کچھ ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ امن کے لئے کمیٹیاں بنانا حکومتوں کی ’پرانی عادت‘ رہی ہے، ان سے کبھی مسئلے حل نہیں ہوئے۔حقیقت یہ ہے کہ امن کے قیام کی ذمے داری ایک مرتبہ پھر پی پی کے کاندھوں پر یہ کہا کر ڈال دی ہے کہ یہاں کا مینڈیٹ پیپلز پارٹی کے پاس ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر پی پی کی اسی قیادت نے حالات سنبھالنا ہوتے تو پانچ سال میں جو کچھ ہوا، اسے پی پی حکومت روک سکتی تھی جبکہ اس وقت وفاق میں بھی اسی کی حکومت تھی لیکن اس وقت کچھ نہیں ہوا تو اب کیا ہوگا؟