پاکستان کے واحد اور دنیا میں تیسرے بڑے شپ بریکنگ یارڈ گڈانی کی مزدور تنظیم نے ایک بحری جہاز کے تحقیق کے بغیر لنگرانداز ہونے پر تشویش کا اظہار کیا ہے جس پر اطلاعات کے مطابق مبینہ طور پر مضر صحت مادہ 'مرکری' موجود ہے۔
شپ بریکنگ ورکرز یونین کے صدر بشیر محمودانی کا کہنا ہے کہ بھارت اور بنگلہ دیش کی جانب سے مسترد کیے جانے کے بعد انڈونیشی جہاز کو تلفی کے لیے گڈانی آنے کی اجازت دی گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ کسٹمز اور محکمہ ماحولیات کی جانب سے جہاز کلئیر کیے جانے کے بعد اس کا نال کاٹنے کی بھی اجازت دے دی۔
بشیر محمودانی نے بتایا ہے کہ انٹرپول کی جانب سے وارننگ کے باوجود بھی اس کی باقاعدہ چیکنگ کے دوران اگر کوئی کوتاہی ہوئی ہے تو اس کی ذمہ داری حکومتی اداروں پر ہی عائد ہوتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو نشاندہی ہونے پر یہ تحقیق کرنی چاہیے تھی کہ وہ کیا وجوہات تھیں، جس کی وجہ سے بھارت اور بنگلہ دیش کے حکام نے اس جہاز کو لینے سے انکار کیا۔ جب کہ شپ بریکر بھی اس کا جواب نہیں دے رہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ پتہ لگانا ضروری ہے کہ ایک ایسا جہاز یہاں لنگر انداز کیوں ہوا جس سے آلودگی پھیلنے یا انسانی صحت کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ تاہم اب بلوچستان کی حکومت اس بارے میں تحقیقات کر رہی ہے۔
تحقیقات کس پہلو پر ہو رہی ہیں؟
بلوچستان کی صوبائی حکومت نے انسانی صحت اور ماحول کے لئے انتہائی مضر سمجھے جانے والے عنصر ' مرکری ' کی جہاز میں زیادہ مقدار میں موجودگی پر تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ اور بلوچستان انوائرمنیٹل پروٹیکشن ایجنسی کے ڈائریکٹر ٹیکنیکل محمد خان اتمان خیل کا کہنا ہے کہ اس بارے میں جانچ پڑتال کی جا رہی ہے کہ جہاز کو لنگر انداز ہونے دینے سے قبل انسپیکشن میں کیا کمی اور کوتاہی ہوئی اور جہاز کی آمد پر کس کس محکمے کو آگاہ کیا گیا؟
انہوں نے بتایا کہ شپ بریکنگ یارڈ میں ایک پروسیجر کے تحت بحری جہاز توڑنے کے لئے لائے جاتے ہیں۔ جہاز کے متعلق کہا جارہا ہے کہ اس میں 1500 ٹن مرکری ملا 'سلج آئل' موجود ہے، لیکن اتنی بڑی مقدار میں جہاز میں خراب تیل کی موجودگی ممکن دکھائی نہیں دیتی۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر آلودہ یا مضر صحت مواد جہاز پر موجود بھی ہو، تو بھی ادارے کے پاس اسے محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانے کی مہارت موجود ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جہاز کے نچلے حصے میں جمع فاضل تیل میں اگر 200 ملی گرام فی کلو سے زائد مرکری موجود ہوا تو یہ خطرناک ہو سکتا ہے۔
شپ بریکنگ میں جہاز لانے کا طریقہ کار کیا ہے؟
محمد خان اتمان خیل کا کہنا ہے کہ جب کوئی جہاز اسکریپنگ یعنی پرزے الگ کرنے کے لئے گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں لایا جاتا ہے تو پہلے آوٹر اینکریج پر سودا ہونے کے بعد میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی، لیویز، کوسٹ گارڈ، کسٹمز کی کلئیرنس کے بعد ہی اسے شپ یارڈ آنے کی اجازت دی جاتی ہے۔
لنگر انداز ہونے کے بعد جہاز کا مالک ایک بار پھر کسٹمز حکام، ای پی اے، لیبر ڈپارٹمنٹ اور متعلقہ کمشنر کو آگاہ کرتا ہے۔ جانچ پڑتال کے بعد سرٹیفیکیشن کا عمل مکمل کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس میں کسی کوتاہی کا امکان کم ہی لگتا ہے لیکن اس کے باوجود تمام معاملات کی دوبارہ سے جانچ پڑتال کی جا رہی ہے۔
جہاز میں خطرناک مواد کی موجودگی کا علم کیسے ہوا؟
وائس آف امریکہ کو حاصل دستاویز کے مطابق انٹرپول نے 22 اپریل کو پاکستانی حکام کو آگاہ کیا کہ ایف ایس او ریڈینٹ نامی بحری جہاز ممبئی سے گڈانی کی جانب آ رہا ہے اور اس جہاز کا عملہ 1500 ٹن مضر صحت 'آئل سلج' کو غیر قانونی طور پر ٹھکانے لگانا چاہتا ہے۔ جو عالمی معاہدوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ انٹرپول نے مزید لکھا کہ مئی 2020 میں بھی اس جہاز کو بنگلہ دیش میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔ جب کہ 14 اپریل کو ممبئی انکریج سے بھی یہ جہاز چل نکلا تھا۔
30 اپریل کو جہاز کے گڈانی بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے کے بعد بھی پاکستانی حکومتی اداروں کے درمیان خط و کتابت جاری رہی۔ اور پھر بالآخر پاکستان شپ بریکرز ایسوسی ایشن نے 19 مئی کو اس جہاز کی خرید و فروخت کے عمل کو روک دیا۔ تاہم ایسوسی ایشن کے سیکرٹری محمد عمیر عیسانی نے بتایا کہ اس سے قبل ہی دیوان شپ بریکنگ پرائیویٹ لمیٹڈ نے نہ صرف اسےخرید لیا تھا بلکہ وہ یارڈ میں لنگر انداز بھی ہو چکا تھا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ جہاز کو سیل کر دیا گیا ہے اور انتظامیہ اس پر کام سے روک رہی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ہی جہاز توڑنے کی اجازت دی جائے گی۔
حکام کے مطابق گڈانی کے شپ بریکنگ یارڈ میں ایک ماہ میں اوسطا دس سے بارہ بحری جہاز آتے ہیں۔ اور اس سائز کے جہاز سے تقریباً 18 سے 20 کروڑ روپے صرف حکومتی ڈیوٹی کی مد میں حاصل ہوتے ہیں۔ جب کہ 2018 میں شپ بریکنگ انڈسٹری سے 14 ارب روپے کے لگ بھگ کا ریونیو حاصل ہوا تھا۔
یاد رہے کہ نومبر 2016 میں گڈانی میں شپ بریکنگ کے دوران ایک جہاز میں آگ بھڑک اٹھی تھی جس میں دو درجن سے زائد مزدور ہلاک اور کئی زخمی ہو گئے تھے۔ شپنگ یارڈ میں جنوری 2017 میں بھی حادثہ ہوا تھا جس میں پانچ مزدور ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ حادثات شپ بریکنگ کے دوران حفاظتی اقدامات نہ کئے جانے کے باعث رونما ہوئے۔