گل رحیم 40 سال قبل گھر بار چھوڑ کر صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع صوابی سے گڈانی آئے اور ’شپ بریکنگ یارڈ‘ میں مزدوری شروع کی۔ آج ان کا 22سالہ بیٹا بھی اسی مقام پر ان کے ہمراہ مزدوری کر رہا ہے مگر حال ہی میں ایک جہاز کے آئل ٹینکر میں آتشزدگی باعث مزدوروں کی ہلاکت کے واقعہ کے بعد گل رحیم اپنے بیٹے سمیت یہ کام چھوڑ نے کا سوچ رہے ہیں۔
انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’چالیس سال پہلے جو حالات تھے اب وہ نہیں ہیں مالکان کو صرف پیسہ اور لوہا چاہیے انہیں مزدوروں کی فلاح و بہبود سے کوئی کام نہیں۔۔یہاں نہ صحت کی سہولت ہے اور نہ ہی رہائش کی۔‘‘
واضح رہے کہ گڈانی میں گزشتہ ماہ کے پہلے ہفتے ایک جہاز کی کٹنگ کے دوران دھماکے اور آتش زدگی کے باعث کم از کم 27مزدور ہلاک جب کہ 50سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔
’شپ بریکنگ یارڈ‘ میں مزدوروں کی فلاح کے لیے کام کرنے والی تنظیم کے صدر بشیر احمد مندرانی کے مطابق اس صنعت میں کام کرنے والے مزدوروں کی تعداد چھ ہزار تھی مگر جہاز میں آگ لگنے کے واقعہ اور حفاظتی انتظامات کی عدم فراہمی کے باعث یہاں صرف تین ہزار مزدور رہ گئے ہیں۔
ان کے بقول ’’ہماری یونین 2009 ء سے مزدوروں کو کام کے دوران حفاظتی آلات کی فراہمی کے لیے آواز بلند کی۔ مزدور آگ لگنے کے باعث ہلاک ہو گئے اور بہت سے مزدور عدم تحفظ محسوس کرکے کام چھوڑ گئے۔‘‘
محکمہ محنت بلوچستان کے ڈپٹی ڈائریکٹر فدا شاہوانی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مزدوروں کو تمام حفاظتی آلات فراہم کیے گئے ہیں جب کہ ٹھیکہ داروں کو ہر پلاٹ میں ایمولینس کی سہولت فراہم کرنے کی بھی ہدایت کی ہے ۔
ان کے مطابق ’’گڈانی شپ یارڈ بریکنگ میں 32پلاٹ ہیں جن میں سے ہر ایک میں ایمولینس اور ڈسپنسری کی سہولت فراہم کرنے کو ضروری قرار دیا گیا ہے جب کہ کسی بھی ممکنہ حادثے سے بچنے کے لیے فائر بریگیڈ ٹاور بھی جلد ہی قائم کیا جائے گا ‘‘
بلوچستان کی ساحلی پٹی پر قائم گڈانی کا شمار دنیا کے بڑے شپ بریکنگ یارڈز میں ہوتا ہے یہاں پہلے بھی حادثات رونما ہو چکے ہیں۔