چین میں چھ سے سات سال کی عمر کے بچوں سے تحریری امتحان لینے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ یہ فیصلہ حال ہی میں متعارف کی گئی تعلیمی اصلاحات کے تحت کیا گیا ہے۔
چین میں تعلیمی نظام کا انحصار امتحانات پر ہے جس کے لیے پہلی جماعت سے لے کر 18 برس کی عمر تک قومی سطح کا ٹیسٹ ’گاؤ کاؤ‘ شامل ہے۔
گاؤ کاؤ کو دنیا کے مشکل ترین امتحانات میں شمار کیا جاتا ہے اور اس میں ایک نمبر کی کمی بیشی کسی بھی طالب علم کے مستقبل کا تعین کرتی ہے۔
گاو کاؤ امتحان سے طلبہ کی کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم کے شعبے اور ادارے کا تعین ہوتا ہے۔ ہر سال یہ ٹیسٹ ملک گیر سطح پر منعقد ہوتا ہے۔
چین کی وزارتِ تعلیم کے جاری کردہ نئے رہنما اصولوں میں کہا گیا ہے کہ تواتر سے امتحانات کے باعث طلبہ کو شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
وزارتِ تعلیم کے مطابق ابتدائی عمر ہی سے بچوں پر امتحانات کا دباؤ ان کی دماغی اور جسمانی صحت کو متاثر کرتا ہے۔
نئی ہدایات میں اسکولوں میں لازمی تعلیم کے لیے بھی سال میں صرف ایک بار امتحان کی حد مقرر کردی گئی ہے۔ البتہ جونئیر ہائی اسکول کی سطح پر وسط مدتی اور آزمائشی نوعیت کے امتحانات کی اجازت دی گئی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ٹیوشن سینٹرز کی ’صنعت‘ کو دھچکا
یہ اقدامات چین کے تعلیمی نظام میں بڑے پیمانے پر متعارف کرائی گئی اصلاحات کے تحت کیے جارہے ہیں جن میں ٹیسٹ اور امتحانات کی تیاری کرانے والے اداروں اور ٹیوشن سینٹرز کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کیا جائے گا۔
عام طور پر چین میں والدین بچوں کے تعلیمی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے ان اداروں کا سہارا لیتے ہیں۔
گزشتہ ماہ چین میں تمام نجی ٹیوشن سینٹرز کو غیر منافع بخش اداروں میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ ٹیوشن ایجنسیز کو اہم مضامین پر ہفتہ وار اور چھٹیوں کے دوران خصوصی کلاسیں لینے سے بھی روک دیا گیا تھا۔
حکومت کے ان اقدامات نے چین میں امتحانات اور دیگر تعلیمی ٹیسٹوں کی تیاری سے جڑی 100ارب ڈالر کی صنعت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
ان حالیہ اقدامات کا مقصد چین میں تعلیمی عدم مساوات کا خاتمہ قرار دیا جارہا ہے۔
چین کا متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے والدین اپنے بچوں کا اعلی تعلیمی اداروں میں داخلہ کروانے کے لیے ٹیسٹ کی تیاری اور امتحان میں اچھے نمبروں کے لیے ٹیوشن فیس کی مد میں اوسطاً فی سال 15400 ڈالر سے زائد کی رقم بخوشی خرچ کر دیتے ہیں۔
شنگھائی میں تعلیم سے متعلق مشاورت کی خدمات فراہم کرنے والی ایک فرم کی شراکت دار کلاڈیا وانگ کا خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا ہے کہ دنیا میں ٹیوشن کا چین جیسا مضبوط کلچر کہیں اور نہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
حکومت کی بدلتی پالیسیاں
چین میں گزشتہ دہائیوں کے دوران آبادی میں اضافے کی شرح کم ہونے کی وجہ سے حکومت نے دو بچوں کی پیدائش کی حد ختم کر دی ہے۔ اس کے علاوہ مزید بچے پیدا کرنے والے والدین کے لیے مراعات میں بھی اضافہ کیا جا رہا ہے۔
بیجنگ شہر میں حکام نے گزشتہ ہفتے ہر چھ سال بعد تدریسی عملے کے تبادلے کی پالیسی کا اعلان بھی کیا تھا۔ ان تبادلوں کا مقصد باصلاحیت افراد کے مخصوص اداروں تک محدود ہونے کو روکنا ہے۔
رواں سال چین کی وزارت تعلیم نے پہلی اور دوسری کلاس کے بچوں کو تحریری ہوم ورک دینے پر بھی پابندی عائد کردی تھی۔ اس کے علاوہ کم عمر طلبہ کے لیے ایک رات میں ڈیڑھ گھنٹے تک ہوم ورک کرنے کی حد متعین کر دی تھی۔
اس کے علاوہ چین میں وزارتِ تعلیم نے ابتدائی تعلیمی نصاب میں بھی تبدیلیاں کی ہیں اور اب بچوں کو ابتدائی عمر ہی سے صدر شی جی پنگ کے سیاسی افکار کا لازمی مضمون بھی پڑھنا ہوگا۔
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے لی گئی ہیں۔