صحافیوں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم کے مطابق 49 صحافیوں کو قید کرنے پر ترکی سرفہرست جب کہ دوسرے نمبر پر ایران ہے جہاں تقریباً 45 صحافی قید ہیں۔
صحافیوں کے حقوق کے لیے سرگرم ایک موقر تنظیم نے چین کو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو قید کرنے والا دنیا کا تیسرا بد ترین ملک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہاں کم ازکم 32 صحافی جیلوں میں ہیں۔
تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس ’سی پی جے‘ کے مطابق قید کیے جانے والوں میں اکثریت کا تعلق تبت اور شن جیانگ کے دور افتادہ علاقوں سے ہے۔ دو تہائی مقید صحافی تبتی یا اوغر ہیں جنہیں نسلی کشیدگی کے بارے میں لکھنے پر حراست میں لیا گیا۔
یہ اعداد و شمار مقید صحافیوں کے بارے میں منگل کو جاری ہونے والی تنظیم کی سالانہ رپورٹ میں بتائے گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق رواں سال صحافیوں کو حراست میں لیے جانے کے سب سے زیادہ واقعات رونما ہوئے۔ 49 صحافیوں کو قید کرنے پر ترکی سرفہرست جب کہ دوسرے نمبر پر ایران ہے جہاں تقریباً 45 صحافی قید ہیں۔
سی پی جے نے 1990ء سے دنیا بھر میں قید صحافیوں کے بارے میں اعداد و شمار جمع کرنا شروع کیے تھے اور اس کا کہنا ہے کہ اس برس پوری دنیا میں 232 صحافی سلاخوں کے پیچھے ہیں جو کہ ماضی کے سالوں کی نسبت سب سے زیادہ تعداد ہے۔
مزید برآں صحافیوں اور مدیران پر زیادہ تر دہشت گردی اور ریاست کے خلاف جرائم کے الزامات عائد کیے گئے۔
رپورٹ میں ایک مثبت پہلو کا بھی ذکر ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 1996ء کے بعد پہلی مرتبہ برما کو ایسے ملکوں میں شمار کیا گیا ہے جہاں صحافیوں کو قید نہیں کیا جاتا۔ اس جنوب مشرقی ملک نے گزشتہ ایک سال کے دوران سیاسی اصلاحاتی عمل کے سلسلے میں کم ازکم 12 مقید صحافیوں کو رہا کیا۔
لیکن سی پی جے نے چین کے بارے میں مزید مایوسی کا اظہار کیا ہے جہاں صحافی کمیونسٹ رہنماؤں کی طرف سے دنیا کی سخت ترین سنسر پالیسیوں، مداخلت اور ہراساں کیے جانے کی شکایات کرتے نظر آتے ہیں۔
بیجنگ نے حال ہی میں کمیونسٹ جماعت کے چند ناقدین مصنفوں اور مخالفین کو لمبے عرصے کی قید کی سزائیں سنائی ہیں۔ حکمران جماعت ایسے اختلاف رائے کو اقتدار کے لیے خطرہ قرار دیتی ہے۔
تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس ’سی پی جے‘ کے مطابق قید کیے جانے والوں میں اکثریت کا تعلق تبت اور شن جیانگ کے دور افتادہ علاقوں سے ہے۔ دو تہائی مقید صحافی تبتی یا اوغر ہیں جنہیں نسلی کشیدگی کے بارے میں لکھنے پر حراست میں لیا گیا۔
یہ اعداد و شمار مقید صحافیوں کے بارے میں منگل کو جاری ہونے والی تنظیم کی سالانہ رپورٹ میں بتائے گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق رواں سال صحافیوں کو حراست میں لیے جانے کے سب سے زیادہ واقعات رونما ہوئے۔ 49 صحافیوں کو قید کرنے پر ترکی سرفہرست جب کہ دوسرے نمبر پر ایران ہے جہاں تقریباً 45 صحافی قید ہیں۔
سی پی جے نے 1990ء سے دنیا بھر میں قید صحافیوں کے بارے میں اعداد و شمار جمع کرنا شروع کیے تھے اور اس کا کہنا ہے کہ اس برس پوری دنیا میں 232 صحافی سلاخوں کے پیچھے ہیں جو کہ ماضی کے سالوں کی نسبت سب سے زیادہ تعداد ہے۔
مزید برآں صحافیوں اور مدیران پر زیادہ تر دہشت گردی اور ریاست کے خلاف جرائم کے الزامات عائد کیے گئے۔
رپورٹ میں ایک مثبت پہلو کا بھی ذکر ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 1996ء کے بعد پہلی مرتبہ برما کو ایسے ملکوں میں شمار کیا گیا ہے جہاں صحافیوں کو قید نہیں کیا جاتا۔ اس جنوب مشرقی ملک نے گزشتہ ایک سال کے دوران سیاسی اصلاحاتی عمل کے سلسلے میں کم ازکم 12 مقید صحافیوں کو رہا کیا۔
لیکن سی پی جے نے چین کے بارے میں مزید مایوسی کا اظہار کیا ہے جہاں صحافی کمیونسٹ رہنماؤں کی طرف سے دنیا کی سخت ترین سنسر پالیسیوں، مداخلت اور ہراساں کیے جانے کی شکایات کرتے نظر آتے ہیں۔
بیجنگ نے حال ہی میں کمیونسٹ جماعت کے چند ناقدین مصنفوں اور مخالفین کو لمبے عرصے کی قید کی سزائیں سنائی ہیں۔ حکمران جماعت ایسے اختلاف رائے کو اقتدار کے لیے خطرہ قرار دیتی ہے۔