ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں گائے کو کس نظر سے دیکھا جائے گا کیونکہ اب اس نے ایسا دودھ دینا شروع کردیا ہے جو بالکل انسانی دودھ جیسا ہےاور اس میں موجود تمام اجرااور مرکبات مکمل طورپر وہی ہیں اور اسی تناسب سے ہیں جیسے ماں کے دودھ میں ہوتے ہیں۔
چینی دارالحکومت بیجنگ میں واقع زرعی یونیورسٹی کے ایگرو بائیوٹیکنالوجی شعبے کے سائنس دان عرصے سے جاری تحقیق کے بعد تین سو ایسی گائیں تیار کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں جو انسانی صفات رکھنے والا دودھ دیتی ہیں۔
تحقیقی ٹیم کے سربراہ پروفیسر نینگ لی کا کہناہے ہم نے کلوننگ ٹیکنالوجی کو استعمال میں لاتے ہوئے انسانی ڈی این اے اور ہال سٹین نسل کی گائے کے امتزاج سے گائے کی ایک ایسی نسل پیدا کی ہے جس کے دودھ میں انسانی دودھ کے تمام اجراء اور خصوصیات موجود ہیں۔
پروفیسر لی کا کہناتھا اس وقت ہمارے پاس اس نئی نسل کی تین سو گائیں موجود ہیں اورہم ان کی تعداد میں اضافے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ انسانی دودھ کی مارکیٹ میں فراہمی ممکن بنائی جاسکے۔
ہال سٹین نسل کی گائے کا اصل وطن ہالینڈ ہے اور اسے دنیابھر میں سب سے زیادہ ددودھ دینے والی نسل سمجھا جاتا ہے۔
پاکستان میں زیادہ تر بھینس کے دودھ کوترجیح دی جاتی ہے اور اس کی وجہ ہے بھینس کے دودھ کا گائے کے دودھ سے گاڑھا ہونا ۔ بھینس کے دودھ میں چکنائی کا تناسب پانچ فی صد کے لگ بھگ ہوتا ہے جب کہ گائے کے دودھ میں یہ مقدار ساڑھے تین فی صد ہے۔ طبی ماہرین گائے کے دودھ کو انسانی صحت کے لیے زیادہ بہتر قراردیتے ہیں۔ چند ملکوں کے سوا دنیا بھر میں ڈیری کی ضروریات پوری کرنے کے لیے گائے کا دودھ ہی استعمال کیا جاتا ہے۔
لیکن پروفیسر لی کا کہناہے کہ دس سال کے اندر مارکیٹوں میں انسانی دودھ کھلے عام دستیاب ہونے لگے گا۔
طبی ماہرین نوزائیدہ بچوں کو اپنی عمر کے ابتدائی عرصے میں ماں کا دودھ پلانے پر زور دیتے ہیں۔ ان کا کہناہے کہ انسانی دودھ میں ایسے قدرتی اجزا اور مرکبات کثرت سے موجود ہوتے ہیں جو بچوں کے مدافعتی نظام کو مضبوط بنانے میں مدد دیتے ہیں۔ ماں کا دودھ پینے والے بچے ، ان بچوں کے مقابلے میں ، جنہیں ماں کا دودھ میسر نہیں ہوتاہے، بیماریوں سے زیادہ محفوظ رہتے ہیں۔
ڈاکٹر نینگ لی اور ان کی ٹیم کا مرکزی نکتہ تجارتی بنیادوں پر ایسے دودھ کی فراہمی ممکن بناناہے جو ماں کے دودھ کی طرح بچوں کے مدافعتی نظام کو مضبوط بنا کر ان میں بیماریوں کے خلاف مزاحمت پیدا کرسکے۔
اس وقت دنیا بھر کی مارکیٹوں میں چینی مصنوعات کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں اور اس کی معیشت کی افزائش دنیا بھر میں سب سے تیز ہے۔ چین اب خوراک کی فراہمی کے شعبے میں بھی دنیا کی قیادت کا سوچ رہاہے۔ جس کے لیے اس کی نظریں جینیاتی سائنس اور بائیو ٹیکنالوجی کے شعبے پر لگی ہوئی ہیں۔ سٹیٹ کی لیبارٹریز کے ایگرو بائیو ٹیکنالوجی کے شعبے میں ہونے والی اس تحقیق کو ماہرین دودھ کی نئی ورائٹی متعارف کرانے کی سمیت ایک قدم ہے۔
پروفیسر لی کا کہناہے کہ نیا دودھ ذائقے میں عام گائے کے دودھ سے تیز ہے۔اس میں ماں کے دودھ میں پایا جانے والا پروٹین Lysozymeانسانی تناسب سے موجود ہے۔ یہ پروٹین نوزائیدہ بچوں کو انفکشن سے بچانے میں مدد دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دودھ میں lactoferrin اور alpha-lactalbumin بھی قدرتی طورپر شامل ہیں۔
پروفیسر لی نے میڈیا پر اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ ان کی ٹیم نے یہ ثابت کردکھایا ہے کہ انسانی صفات رکھنے والی کلون گائے بنانا ممکن ہے جو مستقبل کے تبدیل ہوتے ہوئے انسانی معاشرے کی ضروریات پورا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
پروفیسر لی کی کلون گائے ہوبہو عام گائے جیسی ہے اور سوائے دودھ کے ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔
جینیاتی طریقے سے حاصل کیے جانے والے دودھ پر کئی ماہرین نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ کلون جانور پیدا کرنے کی ٹیکنالوجی ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے اور اس کے تمام پہلوؤں سے آگاہی حاصل کیے بغیر ان سے حاصل کردہ خوراک کئی انجانے خطرات کا سبب بن سکتی ہے۔
تاہم برطانیہ کی یونیورسٹی آف نوٹنگھم کے حیاتیات کے ایک ماہر پروفیسرکیتھ کیمپل کا کہتے ہیں کہ جینیاتی طریقوں سے پیدا کردہ اجناس اور جانور کئی عشروں سے انسان کی خوراک کا حصہ ہیں اور ابھی تک کوئی نقصان دہ پہلو سامنے نہیں آیا۔
لیکن برطانیہ کی ایک تنظیم جین واچ کی ڈائریکٹر ہیلن ویلس کا کہناہے کہ انسانی صفات کے دودھ سے کئی اخلاقی مسائل اٹھ سکتے ہیں اور ویسے بھی جب انسان کو ماں کی شکل میں یہ دودھ میسر ہے تو پھر اس کے لیے مصنوعی گائے پر توجہ کیوں؟
اس پر مجھے ایک کلاسیکی انگریزی ڈرامہ یاد آرہاہے جس کےایک منظرمیں ایک سائنس دان سنگ مرمر سے روئی بنانے کے تجربات کررہاہے۔ ایک شخص اس سےپوچھتاہے کہ روئی تو بکثرت موجود ہے ۔ تم اپنی جان کیوں ہلکان کررہے ہو؟
وہ کہتاہے کہ اس کا جواب وقت دے گا۔۔۔۔ وقت آنے پر۔