چین نے کہا ہے کہ اسے درپیش بیرونی خطرات کے پیشِ نظر رواں برس دفاع کے لیے اخراجات کی مد میں 225 ارب ڈالر (15 کھرب 50 ارب یوآن)مختص کیے جائیں گے۔
چین نے گزشتہ برس اپنے دفاعی بجٹ میں سات اعشاریہ ایک فی صد اضافہ کیا تھا۔ البتہ رواں برس یہ اضافہ سات اعشاریہ دو فی صد ہے۔ تین برس میں دفاعی اخراجات میں چین کا یہ سب سے بڑا اضافہ بتایا جا رہا ہے۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق چین کے دفاعی اخراجات امریکہ کے مقابلے میں اب بھی کم ہیں۔ امریکہ نے رواں برس دفاع کے لیے 800 ارب ڈالر سے زائد مختص کیے ہیں۔
چین اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ ایک ایسے موقع پر کر رہا ہے جب بیجنگ نے رواں برس معاشی نمو کا ہدف پانچ فی صد رکھا ہے جو کہ کئی عشروں کے دوران کم ترین ہدف ہے۔
ملک کے دفاعی بجٹ میں اضافے کا اعلان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب چین پارلیمان کا سالانہ اجلاس ہو رہا ہےجسے دنیا ایک علامتی پارلیمان کی نظر سے دیکھتی ہے۔ یہی ایوان ملک کی طاقت ور ترین شخصیت صدر شی جن پنگ کی صدارت کی تیسری مدت کا بھی فیصلہ کرے گی۔
SEE ALSO: کیا چین تائیوان پرحملہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟چین کے سبکدوش ہونے والے وزیرِ اعظم لی کی چیانگ نے نیشنل پیپلز کانگریس (این پی سی) کےمندوبین کو آگاہ کیا کہ چین پر بیرونِ ملک سے دباؤ ڈالنے کی کوشش بڑھ رہی ہے۔
بیجنگ کے گریٹ ہال آف دی پیپل میں ہزاروں مندوبین کے سامنے سرکاری امور اور کارکردگی کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ مسلح افواج کی جانب سے فوجی تربیت کو مزید تیز کرنے کی ضرروت ہے جب کہ مختلف عسکری شعبہ جات میں تیاری پر دھیان بھی مرکوز کرنا ہوگا۔
سبکدوش ہونے والے وزیرِ اعظم کا مزید کہنا تھا کہ فوج کو اولیت لڑاکا نوعیت کی صورتِ حال کو مدنظر رکھنا ہو گا جب کہ ایسی صورتِ حال ک لیے بہتر تربیت پر تو جہ دی جائے۔
بیجنگ کے دفاع کے لیے اعلان کردہ بجٹ پر مبصرین کہتے رہے ہیں کہ چین سرکاری طور پر اعلان کردہ مالیت سے عسکری میدان میں کہیں زیادہ اخراجات خرچ کرتا ہے۔
چین کے دفاعی بجٹ میں اضافہ ایسے وقت میں سامنے آ رہا ہے جب بیجنگ اور واشنگٹن میں تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
گزشتہ چند برس کے دوران امریکہ اور چین میں تجارت، انسانی حقوق اور کچھ دیگر معاملات پر بات چیت ہوئی ہے البتہ دونوں کے تعلقات میں حالیہ چند ماہ سے سرمہری چھائی ہوئی ہے۔ ایسے میں امریکہ نے چین کا مبینہ جاسوس غبارہ بھی حالیہ ہفتوں میں مار گرایا تھا۔
اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے معلومات لی گئی ہیں۔