پاکستان اور چین نے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں پن بجلی منصوبے کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ ایک ارب 50 کروڑ ڈالر کے اس منصوبے سے 700 میگاواٹ بجلی حاصل ہو گی۔
پیر کو اس حوالے سے اسلام آباد میں ہونے والی دستخطی تقریب میں وزیر اعظم عمران خان نے شرکت کی۔ یہ منصوبہ چین، پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبوں کا حصہ ہے۔
منصوبے کے تحت دریائے جہلم کے قریب بجلی گھر تعمیر کیا جائے گا جس کی تکمیل 2026 میں متوقع ہے۔
اس منصوبے کا آغاز ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب مشرقی لداخ میں چین اور بھارت کے درمیان کشیدگی بھی پائی جاتی ہے۔ گزشتہ ماہ ہونے والی ایک جھڑپ میں 20 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات بھی کشیدہ ہیں۔
بھارت میں بعض حلقے بھارتی حکومت سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ چین کے ساتھ تجارتی تعلقات کو محدود کیا جائے اور بھارت میں چینی سرمایہ کار ی کا بھی از سرنو جائزہ لیا جائے۔
ایسے میں پاکستان میں بعض حلقوں کا یہ موقف ہے کہ پاکستان کو اس صورتِ حال سے فائدہ اُٹھا کر مزید معاشی فوائد حاصل کرنے چاہئیں۔
بین الاقوامی اُمور کے تجزیہ کار نجم رفیق کا کہنا ہے کہ اب چین نہ چاہتے ہوئے بھی تنازع کشمیر کا فریق بن گیا ہے لیکن ان کے بقول چین اور بھارت کے درمیان حالیہ سرحدی جھڑپ کے باوجود دونوں ملکوں کے تجارتی تعلقات میں کوئی اثر نہیں پڑے گا کیوں کہ دونوں ملک اب بھی مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے نجم رفیق کا کہنا تھا کہ یہ تاثر بھی درست نہیں کہ پاکستان چین، بھارت سرحدی تنازع سے کوئی معاشی فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں چینی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن اس کے باوجود چین اور بھارت کے درمیان تجارت کا حجم بہت زیادہ ہے اور اس کا پاکستان کے ساتھ موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔
اُن کے بقول چین اور بھارت دونوں کی آبادی ایک ارب سے زیادہ ہے اور دونوں ہمسائیہ ملکوں کے تجارتی تعلقات کا دائرہ کار بہت وسیع ہے۔
نجم رفیق کا کہنا ہے کہ چین نے بھارت میں ایک بڑی سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور دونوں ملک اپنے باہمی تجارتی حجم کو ایک کھرب ڈالر تک لے جانے کے متمنی ہیں۔ لہذٰا وہ نہیں سمجھتے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کوئی تجارتی تنازع بھی جنم لے سکتا ہے۔
اُن کے بقول بھارت کے سی پیک سے متعلق تحفظات کے باوجود چین کا یہ موقف رہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کشمیر کا تنازع بات چیت سے حل کریں۔ لیکن دوسری طرف چین پاکستانی کشمیر میں سی پیک منصوبوں کو وسعت دے کر یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر، پاکستان کا ہی حصہ ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان میں سی پیک کے منصوبے سست روی کا شکار ہو گئے تھے لیکن تجزیہ کار عابد سلہری کا کہنا ہے کہ اس کی یہ وجہ نہیں تھی کہ چین اور بھارت کے تعلقات اس وقت اچھے تھے بلکہ اس کی کئی اندرونی وجوہات تھیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
اگرچہ اس وقت ایک تاثر یہ تھا کہ شاید چین سی پیک کے منصوبوں سے پیچھے ہٹ رہا ہے لیکن ان کے بقول اسلام آباد اور بیجنگ پسِ پردہ ان منصوبوں پر عمل درآمد کے لیے بات چیت جاری رکھے ہوئے تھے۔
عابد سلہری کا کہنا ہے کہ چین اور بھارت سرحدی تنازعات کے باوجود اپنے اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو وسعت دیتے رہے ہیں اور ان کے خیال میں اب بھی بیجنگ اور نئی دہلی حالیہ سرحدی تنازع کے باوجود تجارتی تعلقات کو برقرار رکھنے کا کوئی راستہ نکال لیں گے۔
ان کے بقول ریاست کی سطح پر تعلقات میں سرد مہری کے باوجود دونوں ملکوں کی تجارتی کمپنیاں اور نجی کاروباری ادارے ایک دوسرے کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو برقرار رکھنا چاہیں گے۔
تاہم عابد سلہری کا کہنا ہے چین کچھ علامتی منصوبے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر شروع کر کے یہ پیغام دے رہا ہے کہ وہ پاکستانی کشمیر کو متنازع نہیں سمجھتا بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ بھارت کو اپنے زیرِ انتظام کشمیر میں پالیسی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
لیکن عابد سلہری کے بقول چین بھارت کے ساتھ کی جانے والی سرمایہ کاری کا رُخ پاکستان کی طرف منتقل نہیں کرے گا۔ چین سی پیک کے تحت طے شدہ منصوبوں پر ہی پاکستان میں کام کرے گا۔
یاد رہے کہ بیجنگ، چین پاکستان اقتصادی راہداری ( سی پیک) سے جڑے اربوں ڈالر کے منصوبوں پر کام کررہا ہے ان میں توانائی اور بنیادی ڈھانچے کے کئی منصوبے مکمل بھی ہو چکے ہیں۔
بھارت کا پاکستانی کشمیر اور گلگت بلتستان سے متعلق اعتراض
بھارت سی پیک کے تحت پاکستانی کشمیر اور گلگت بلتستان میں منصوبوں اور راہداری کی مخالف کرتا رہا ہے۔
نئی دہلی کا یہ موقف رہا ہے کہ گلگت بلتستان اس کا حصہ ہے جس پر پاکستان کا قبضہ ہے۔ لہذٰا اس متنازع علاقے پر کوئی بڑا منصوبہ شروع نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ پاکستان بھارت کے اس دعوے کو مسترد کرتا رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے چین کی طرف سے پاکستان کے زیرِ انتظام کمشیر میں پن بجلی کے ایک بڑے منصوبے مین سرمایہ کار ی کرنا نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ بظاہر بیجنگ بھی نئی دہلی کے سی پیک سے متعلق بھارت کے اعتراضات کو اہمیت نہیں دے رہا ہے۔
پاکستانی کشمیر میں چین کی سرمایہ کاری ہے کیا؟
پاکستان حکومت کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق دریائے جہلم پر تعمیر ہونے والے پن بجلی کے اس منصوبے سے 700 میگاواٹ بجلی حاصل ہو گی اور یہ منصوبہ چین کی ایک کمپنی مکمل کرے گی۔
حکام کا کہنا ہے کہ منصوبے کے لیے ملک میں ایندھن درآمد کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔
دستخطی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ یہ منصوبہ سی پیک کا حصہ ہے جس سے پاکستان کو معاشی فوائد حاصل ہوں گے۔
ان کے بقول سی پیک کے منصوبے اب اگلے مرحلوں میں داخل ہو رہے ہیں۔ یہ منصوبے صرف رابطہ سڑکوں اور بنیادی ڈھانچے تک ہی محدود نہیں بلکہ اس سے ملک کے دیگر شعبوں کو بھی معاشئ فوائد حاصل ہوں گے۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں شروع ہونے والے پن بجلی کے اس منصوبہ کے لیے کوئی قرضہ حاصل نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ یہ منصوبہ سرمایہ کاری سے مکمل کیا جائے گا۔