دنیا کی بڑی معیشتوں پر مشتمل جی۔20 ممالک نے عالمی مالیاتی اداروں پر زور دیا ہے کہ غریب ممالک کو قرضوں کی ادائیگی میں سہولت فراہم کی جائے تاکہ وہ کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے زیادہ وسائل بروئے کار لا سکیں۔
جی۔20 ممالک کے فیصلے کی روشنی میں پاکستان سمیت 76 ممالک کو رواں سال واجب الادا 40 ارب ڈالرز کے قرضوں کی ادائیگی میں ایک سال کی چھوٹ ملنے کا امکان ہے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی تصدیق کی ہے کہ وزیر اعظم پاکستان کی درخواست پر جی-20 ممالک نے پاکستان سمیت 76 ملکوں کو قرضوں میں ریلیف دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس سے قبل جی۔سیون ممالک نے اس حوالے سے جی۔20 ممالک کو فیصلہ کرنے کا کہا تھا۔ عالمی بینک اور عالمی مالیاتی فنڈ (ٓآئی ایم ایف) نے بھی جی۔20 ممالک کے فیصلوں پر عمل درآمد کا عندیہ دیا تھا۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ قرضوں کی ادائیگی میں سہولت ایک تاریخی اقدام ہے۔ جس سے غریب ممالک کو کرونا وائرس کے باعث درپیش صورتِ حال سے نبرد آزما ہونے میں مدد ملے گی۔
دوسری جانب آئی ایم ایف کے واشنگٹن میں جاری ایگزیکٹو بورڈ اجلاس میں پاکستان کو اضافی ایک ارب چالیس کروڑ ڈالر کے قرض کی منظوری دیے جانے کا امکان ہے۔
مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے میڈیا سے غیر رسمی بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ آئی ایم ایف آج پاکستان کے لیے ایک ارب 40 کروڑ ڈالر کی منظوری دے گا۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے علی فرقان کے مطابق آئی ایم ایف کی پاکستان میں نمائندہ ٹریسا ڈبن نے تصدیق کی ہے کہ کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی مالی مدد کا معاملہ آج ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں زیر بحث آئے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس فیصلے سے پاکستان کو کرونا سے نمٹنے کے لیے بڑی مدد ملے گی۔
پاکستان نے کرونا وائرس کے باعث مشکل معاشی صورتِ حال کے پیش نظر آئی ایم ایف سے اضافی قرض کی درخواست کی تھی۔
ماہر معیشت قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ کرونا وائرس کے باعث ملک میں جنگ کی سی صورتِ حال ہے اور ایسے میں اضافی قرض ملنا پاکستان کے لیے کئی اعتبار سے معاون ثابت ہو گا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مشکل معاشی حالات میں اضافی قرض زرِ مبادلہ کے ذخائر کو مستحکم رکھنے اور وبا سے نمٹنے کے اقدامات کے لیے سود مند ہو گا۔
تاہم ان کے بقول حالات کی بہتری پر حکومت کو ان قرضوں کی ادائیگی کا طریقہ کار بھی وضع کرنا چاہیے۔
آئی ایم کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو مالی سال 2021 میں 12 ارب 73 کروڑ 10 لاکھ ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں جو اب ایک سال کے لیے موخر کیے جانے کا امکان ہے.
'چین کا قرض آٹے میں نمک کے برابر ہے'
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پاکستان کی جانب سے سی پیک کے تحت منصوبوں میں واجب الادا قرض کی ادائیگی میں چھوٹ سے متعلق خبروں کی تردید کی ہے۔
پاکستان کے مقامی اخبار 'ڈان' نے خبر دی تھی کہ صدرِ پاکستان کے حالیہ دورہ چین کے دوران سی پیک کے تحت چلنے والے 12000 میگاواٹ توانائی کے منصوبوں میں پاکستان کے ذمے واجب الادا رقم پر نظرثانی کی درخواست کی تھی۔
اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کے دوران شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ صدرِ پاکستان کا دورہ چین خیر سگالی کے لیے تھا۔ دورے کے دوران قرض کی ادائیگی کے معاملے پر کوئی بات نہیں ہوئی۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کو قرضوں میں ریلیف صرف عالمی مالیاتی اداروں سے ہی مل سکتا ہے۔ اُن کے بقول چین سے لیا گیا قرض آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ چین دنیا کی ترقی یافتہ ممالک کے گروپ جی۔ 20 کا ایک اہم رکن ہے۔
اُنہوں نے بتایا کہ چین نے ترقی پذیر ملکوں کے قرضے معاف کرنے کی تجویز کی حمایت کی ہے۔ اگر چین مخالفت کرتا تو شاید یہ فیصلہ بھی نہ ہوتا۔
پاکستان کے وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کو بیرونی قرضوں کی مد میں ہر سال تقریباً 10 سے 12 ارب ڈالر ادا کرنے ہیں اور اس میں چینی قرضوں کا حصہ بہت کم ہے۔
پاکستان کے سابق مشیر خزانہ سلمان شاہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاکستان کو دیے گئے چینی قرضوں کا حجم بہت کم ہے۔ لیکن اگر چین کو پاکستان سے اس موقع پر کوئی ریلیف مل سکتا ہے تو وہ بجلی گھروں کے منصوبوں میں واجب الادا رقوم کے سلسلے میں ہی مل سکتا ہے۔ اُن کے بقول پاکستان کو اس مد میں بڑی ادائیگیاں کرنی ہیں۔