چین کی تیزی سے ترقی کرتی معیشت نےجہاں بیجنگ اور شنگھائی جیسے شہروں کو دنیا کے لئے ایک مثال بنا دیا ہے وہیں اس ملک کے چھوٹے شہروں پر ترقی کی اس رفتار کامنفی اثر بھی پڑا ہے۔
لیو شاڈونگ کا شمار چین کے بہترین مصوروں میں ہوتا ہے ۔ سال 2008ءمیں انھیں ایک فرانسیسی کمپنی نے موجودہ دور کے دس بہترین اور سب سے زیادہ فروخت ہونے والے مصوروں میں شامل کیا تھا۔
لیو آئل پینٹنگ کرتے ہیں اور اپنی پینٹنگز میں چین کے عام لوگوں کی زندگی کو موضوع بناتے ہیں۔
بیجنگ میں حال ہی میں ہونے والی ایک نمائش میں لیو نے اپنے آبائی شہر جن چنگ میں اپنی واپسی کو موضوع بنایا ہے جسے انھوں نے آج سے 30 سال پہلے چھوڑا تھا۔ اس وقت ان کی عمر صرف 17 برس تھی۔
گزشتہ سال وہ اس شہر میں اپنے جانے پہچانے لوگوں کو ملنے اور کچھ ایسی ہی جگہوں کی پینٹنگز بنانے گئے جو انھوں نے اپنے ماضی میں دیکھی تھیں ۔ لیکن انکے کام میں اس شہر میں آنے والی بڑی تبدیلیوں کی ایک واضح جھلک نظر آتی ہے ۔
1949ءمیں چین میں کمیونسٹ پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد جن چنگ جیسے چھوٹے شہروں میں صنعتی ترقی کی لہر آئی ، لیکن جیسے جیسے یہ ترقی اور اس سے آنے والی خوشحالی بیجنگ جیسے بڑے شہروں کو منتقل ہونا شروع ہوئی ، چھوٹے شہروں میں کارخانے بند ہوتے گئے اور لوگوں کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہوتا گیا۔
لیو شوڈونگ کہتے ہیں کہ اب ان لوگوں کو جو فیکٹریوں میں کام کرتے تھے ، کوئی نیا روزگار تلاش کرنا پڑا۔ جو کسان تھے انہوں نے فیکٹریوں میں کام کرنا شروع کیا تاکہ اپنے بچوں کے لیے بہتر مواقع پیدا کر سکیں۔ لیکن اب ان کے بچوں کو بھی اپنا روزگار بدلنا پڑ رہا ہے اور وہ دیہی علاقوں کا رخ کر رہے ہیں۔
جیروم سینز اس نمائش کے منتظم ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ لیو کے کام میں ترقی پذیر چین کے ان لوگوں کی تصویر ہے جوترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ۔
وہ کہتے ہیں کہ وہ سماجی حقائق ، رویوں اور تبدیلیوں کو پیش کر رہے ہیں ،ایسے حقائق جن کی کوئی اہمیت نہیں لیکن یہ لوگوں کے مسائل ہیں ، جن کے ان پر گہرے اثرات ہوئے ۔
لیو نے اپنی پینٹنگز میں جنگ چینگ کے قصبے میں اس کمرے کی تصویر بنائی جہاں وہ پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنے ایک دوست کی تصویر بنائی جسے فیکٹری سےنکال دیا گیا تھا۔ اور اپنے پرانے دوستوں کی جن میں ایک پولیس آفیسر، ایک کلب کا منیجر اور ایک سابقہ مجرم کی جو ایک ریسٹورنٹ کا مالک بن گیا۔
لیوکہتے ہیں کہ جیسے جیسے معاشرہ بدلتا ہے ، ہر چیز میں تبدیلی آتی ہے۔ اس چیز نے مجھے حیران کر دیا کہ کیسے انسان گھاس کی طرح قدرتی طور پر اس تبدیلی کا ایک حصہ بنتا چلا جاتا ہے۔ جو سردی میں بالکل بے جان ہو جاتی ہے اور بہار کے موسم میں اس میں پھر سے زندگی بھر جاتی ہے۔
لیو کے کام میں چین کے اس عام آدمی کی جھلک ہے جو آج کے ترقی کرتے چین میں اپنی زندگی کی تگ و دو میں مصروف ہے۔