ممکن ہے کہ اس خبر پر کہ 2010 کا نوبیل امن انعام Liu Xiabo کو دیا گیا ہے، بین الاقوامی برادری کو حیرت نہ ہوئی ہو، لیکن چین اس پر بہت نا خوش ہے ۔ اس نے نوبیل کمیٹی پر چین کی عدلیہ کی توہین کرنے کا الزام لگایا ہے اور ناروے اور چین میں سرکاری حکام کے ساتھ کئی میٹنگیں منسوخ کر دی ہیں۔ چین نے ناروے کے ایک میوزیکل گروپ کے پروگرام بھی منسوخ کر دیے ہیں۔
نوبیل کمیٹی کا دفتر ناروے میں ہے اور یہ ایک پرائیوٹ تنظیم ہے ۔ناروے کے وزیرِ خارجہ نے کہا ہےکہ اگر چین کے اقدامات امن کا نوبیل انعام دیے جانے کے رد عمل کے طور پر کیے گئے ہیں، تو وہ بالکل نامناسب ہیں۔ واشنگٹن کے بروکنگس انسٹی ٹیوشن میں چائنا سینٹر کے ڈائرکٹرچِن لی کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ ممکن ہے کہ چین کی ناراضگی جاری رہے ، لیکن زیادہ امکان یہی ہے کہ چین کی توجہ دوسرے معاملات پر ہو جائے گی اور وہ اس انعام کے بارے میں بات کرنا بند کر دے گا۔
چین نے ملک میں اس انعام کے بارے میں بحث مباحثے کو دبا دیا ہے اور سرکاری میڈیا میں اس کے بارے میں بہت محدود اور منفی کوریج ہوئی ہے۔
چین کے انٹرنیٹ کی ایک ماہر ربیکا میکینن کہتی ہیں کہ اس طرح عام شہریوں کے لیے اس اعزاز کے بارے میں آن لائن بحث کرنا نا ممکن ہو گیا ہے ۔’’میں یہ سمجھنے کی کوشش کرتی رہی ہوں کہ چینی انٹرنیٹ پر ، غیر سرکاری میڈیا میں، بلاگس میں، chat رومز وغیرہ میں لوگ کس حد تک اس بارے میں دیکھتے رہے ہیں۔ میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ انٹرنیٹ کو بہت زیادہ سینسر کیا جا رہا ہے اور Liu Xiabo اور ان کے نوبیل انعام کے بارے میں لوگوں تک کچھ پہنچنے نہیں دیا جا رہا ہے ۔‘‘
میکینن کہتی ہیں کہ انھوں نے Liu Xiabo کے امن انعام کے بارے میں کچھ مضامین چین کی بلاگنگ سائٹس پر لگائے لیکن انہیں فورا ً ہی انٹرنیٹ سے ہٹا دیا گیا۔ یہ بڑی عام سی بات ہے کہ کوئی Liu Xiabo کے بارے میں کوئی تبصرہ پوسٹ کرتا ہے اور اسے مٹا دیا جاتا ہے۔ چین میں جو لوگ اپنے موبائیل فون پر Liu Xiabo کے نوبیل امن انعام کے بارے میں کوئی میسیج بھیجنا چاہتے ہیں تو اسے بلاک کر دیا جاتا ہے ۔ وہ کہتی ہیں کہ اتنی سخت سینسر شپ کی وجہ سے Liu Xiabo اور ایوارڈ کے بارے میں کسی قسم کا تبادلۂ خیال ممکن نہیں ہے ۔
بروکنگس انسٹی ٹیوشن کے چِن لی کہتے ہیں کہ ایک طرف تو اس ایوارڈ سے چین میں بعض لوگوں کا یہ تاثر مضبوط ہوا ہے کہ یہ سب چین کے خلاف مغرب کی یا امریکہ کی سازش کا حصہ ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اس ایوارڈ سے چین میں سیاسی اصلاحات ، انسانی حقوق اور جمہوریت پر مثبت اثر پڑے گا۔’’چین کے لوگوں میں نوبیل پرائز کی بڑی اہمیت ہے،وہ چاہے امن کا انعام ہو یا سائنس کا ۔ اس طرح یقیناً چین کے لوگوں بلکہ چین کے لیڈروں کو آج کی دنیا میں چین کے رول کے بارے میں سوچنے کا موقع ملے گا کہ دنیا کے ساتھ کس طرح مِل جُل کر رہا جائے ۔‘‘
میکینن کہتی ہیں کہ اس ایوارڈ سے چین کے کم سے کم ان کئی ہزار لوگوں پر اثر پڑا ہے جنھوں نے چارٹر 08 پر دستخط کیے تھے ۔ یہ جمہوریت کا وہ منشور تھا جو Liu Xiabo نے تحریر کیا تھا، اور جس کی وجہ سے انہیں ڈرایا دھمکایا گیا۔’’حقیقت یہ ہے کہ Li Xiabo نے امن کا نوبیل انعام جیت لیا ہے اور ساری دنیا نے اپنے عقائد پر سختی سے کاربند رہنے پر ان کی تعریف کی ہے ۔ چین میں وہ لوگ جو چھوٹے بڑے خطرات مول لینے کو تیار ہیں، جو چاہتے ہیں کہ چین کے مستقبل کے بارے میں کم از کم بات چیت تو کی جائے، جن لوگوں نے Liu Xiabo کے خیالات کی حمایت کرنے کا خطرہ مول لیا جائے ، وہ اب یہ محسوس کر رہےہیں کہ ان کا موقف صحیح تھا اور انھوں نے جو خطرہ مول لیا تھا وہ رائیگاں نہیں گیا۔‘‘
چین میں حکومت کی ایک اور مخالف خاتون اس خیال سے اتفاق کرتی ہیں۔ Dai Qing کہتی ہیں کہ جیسا کے نوبیل کمیٹی نے واضح طور پر کہا ہے، کہ انعام صرف Liu Xiabo کے لیے نہیں ہے ۔ وہ تو محض علامت ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ چین میں بہت سے لوگ ہیں جنہیں اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے جبکہ وہ Liu Xiabo سے زیادہ مشکل حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ انہیں اس سے فرق نہیں پڑتا۔ وہ لوگ خوش ہیں کہ ان میں سے کم از کم ایک فرد کو تو یہ انعام مل گیا ہے ۔