چینی پارلیمنٹ کے سربراہ نے چین میں کثیر جماعتی جمہوریت کے امکانات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو اس سے ملک میں ابتری پھیل سکتی ہے۔
چین کی پارلیمنٹ کے چیئرمین وو بینگاؤ نے جمعہ کے روز ’نیشنل پیپلز کانگریس ‘ کے بیجنگ میں جاری اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکمران جماعت ’کمیونسٹ پارٹی آف چائنا‘ کی بالادستی کی بنیاد پر قائم سیاسی نظام میں تبدیلی سے ملک میں بڑے پیمانے پر ابتری پھیل سکتی ہے۔
نیشنل پیپلز کانگریسمیں ملک بھر سے حکمران جماعت کے 3 ہزار سے زیادہ مندوبین شریک ہیں جن سے خطاب کرتے ہوئے بنگاؤ کا کہنا تھا کہ کمیونسٹ پارٹی نے ملک میں کثیر الجماعتی سیاسی نظام متعارف نہ کرانے کا پختہ عہد کر رکھا ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ کمیونسٹ پارٹی کے اقتدار سے علیحدہ ہونے کی صورت میں ترقی کے وہ ثمرات ضائع ہوسکتے ہیں جو ان کے بقول چین نے اب تک حاصل کیے ہیں۔ بنگاؤ کا کہنا تھا کہ اگر چین میں ایسا سیاسی نظام متعارف کرایا گیا جس میں اقتدار مختلف جماعتوں کے پاس باری باری آئے تو اس سے ملک ان کے بقول ’سول ابتری اور عدم اتفاق کی گہرائیوں ‘ میں جا گرے گا۔
انہوں نے ملک میں وفاقی نظام کے قیام اور حکومت کے مختلف شعبوں کے درمیان اختیارات کی کسی نئی تقسیم کے امکانات کو بھی سختی سے مسترد کیا۔
وو بنگاؤ کو چین ی پارلیمنٹ ’نیشنل پیپلز کانگریس‘ کا چیئرمین ہونے کے ناطے صدر ہوجن تاؤ کے بعد دوسرے اہم اور طاقتور ملکی راہنما تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم جمعہ کے روز اپنے خطاب میں ظاہر کیے گئے ان کے یہ خیالات چینی وزیرِاعظم وین جیاباؤ کے گزشتہ سال دیے گئے اس بیان سے متصادم ہیں جس میں چینی وزیرِاعظم نے ملکی سیاسی نظام میں اصلاحات متعارف کرانے پر زور دیا تھا۔
ملک کے جنوبی شہر شینزے میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چینی وزیرِاعظم نے کہا تھا کہ چین کے شہریوں کو مزید جمہوری حقوق ملنے چاہئیں۔ اپنے خطاب وین جیا بائو نے ریاستی طاقت اور اختیارات کی نگرانی کا نظام وضع کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا تھا۔
بعد ازاں ایک امریکی ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بھی چینی وزیرِاعظم نے انہی خیالات کا اعادہ کیا تھا جس سے ان قیاس آرائیوں کو تقویت ملی تھی کہ چین کی مرکزی قیادت کے مابین اصلاحات متعارف کرانے کے معاملہ پر اختلافات موجود ہیں۔
تاہم ملکی پارلیمنٹ کے سالانہ اجلاس کے موقع پر بنگائو جیسے اعلیٰ اختیارات کے حامل عہدیدار کی جانب سے اس طرح کھل کر اصلاحات کی مخالفت کرنے اور ایک جماعت کی بالادستی پر قائم سیاسی نظام برقرار رکھنے کے بیان کو کئی تجزیہ کاروں نے چین کی مرکزی قیادت کا اجتماعی اور متفقہ موقف قرار دیا ہے۔