اے پی کے ایک تجزئیے کے مطابق پاکستان، کینیا، زیمبیا، لاؤس اور منگولیا سمیت چین کے سب سے زیادہ مقروض ایک درجن ممالک ، اس قرض کی ادائیگی کے لیے اپنے ہاں وصول ہونے والے ٹیکس ریونیو کی ہمیشہ سے زیادہ بڑی رقم استعمال کر رہے ہیں جب کہ انہیں اس رقم کی اسکولوں کو کھلا رکھنے، بجلی فراہم کرنے اور کھانے پینے کی چیزیں اور ایندھن فراہم کے لیے ضرورت ہے۔
اور یوں یہ قرض ان کے غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر کو ختم کر رہا ہے جو یہ ممالک اپنے قرضوں پر صرف سود کی ادائیگی کی صورت میں خرچ کرتے ہیں، اور ان میں بعض ملک تو وہ ہیں جن کے پاس بس چند ماہ کی ضرورت پوری کرنے کے زرمبادلہ کے ذخائر بچے ہیں۔
SEE ALSO: چین نے دو بحری جنگی جہاز پاکستان کو فراہم کر دیےاس کے پس پردہ قرض معاف کرنے میں چین کی ہچکچاہٹ اور اس کی انتہائی رازداری ہے کہ اس نے کتنی رقم اور کن شرائط پر بطور قرض دی ہے، جس نے دوسرے بڑے قرض دہندگان کو آگے آنے اور مقروض ملکوں کی مدد کرنے سے روک رکھا ہے۔ اور اس سب سے بالا یہ حالیہ دریافت ہے کہ قرض لینے والوں کو مخفی ایسکرو اکاؤنٹس میں نقد رقم ڈالنی پڑتی ہے جس کے سبب چین قرض دہندگان کی قطار میں وصولی کے لیے سب سے آگے کھڑا ہوتا ہے۔
اے پی کے تجزیے میں جو ممالک شامل ہیں اوران پر جو غیر ملکی قرضے ہیں، ان میں سے پچاس فیصد قرضے چین کے ہیں۔ اور ان میں سے بیشتر ممالک اپنی سرکاری آمدنی کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی پر خرچ کردیتے ہیں ۔
ان میں سے دو ممالک زیمبیا اور سری لنکا، پہلے ہی ڈیفالٹ میں چلے گئے ہیں، جو بندرگاہوں، کانوں اور بجلی گھروں کی تعمیر کے لیے قرضوں پر سود تک کی ادائیگی کرنے سے بھی قاصر ہیں۔
پاکستان میں ٹیکسٹائل کے لاکھوں مزدوروں کو فارغ کر دیا گیا ہے کیونکہ ملک پر بہت زیادہ غیر ملکی قرضہ ہے اور وہ بجلی فراہم کرنے اور مشینیوں کو چالو رکھنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
ماہرین نے پیش گوئی کی ہے کہ اگر چین غریب ممالک کو دیے جانے والے اپنے قرضوں پر اپنا مؤقف نرم کرنا شروع نہیں کرتا،تو مزید ملک ڈیفالٹ ہو سکتے ہیں اور وہاں سیاسی ہلچل کی لہر آ سکتی ہے۔
ماضی میں ایسے حالات میں، امریکہ، جاپان اور فرانس جیسے بڑے قرض دینے والے ملک کچھ قرض معاف کرنے کے لیے معاہدے کرتے تھے، جس میں ہر قرض دہندہ واضح طور پر یہ بتاتا تھا کہ اس پر کیا واجب الادا ہے اور کن شرائط پر تاکہ کوئی بھی فریق یہ محسوس نہ کرے کہ اس کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔
SEE ALSO: بھارتی نژاد اجے پال سنگھ بنگا کی قیادت میں ورلڈ بینک میں کیا تبدیلیاں متوقع ہیں؟چین نے ان اصول و ضوابط کی پابندی نہیں کی
اپنے قرضوں پراربوں کھربوں ڈالر کا بڑا نقصان اٹھانے کے لیے چین کی عدم رضامندی نے، جس پر الاقوامی مالیاتی فنڈ اور عالمی بینک کا اصرار رہا ہے ، بہت سے ممالک کومجبور کر دیا کہ وہ سود ادا کرتے رہیں ، جس کی وجہ سے اس معاشی ترقی میں رکاوٹ پڑی جس سے انہیں قرض ادا کرنے میں مدد ملتی۔
چین کی وزارت خارجہ نے اے پی کے لیے ایک بیان میں اس موقف سے اختلاف کیا کہ چین ایسا قرض دہندہ ہے جو اپنے قرضے معاف نہیں کرتا۔ اس نے اپنے سابقہ بیانات کا اعادہ کیا جن میں فیڈرل ریزرو پر الزام عائد کیا گیا تھا۔ بیان میں کہا گیا ہے اگر وہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے اپنے قرض کا کچھ حصہ معاف کرنے کے مطالبے کو مانتا ہے تو پھر ان کثیر جہتی قرض دہندگان کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیئے، جنہیں وہ امریکہ کی پراکسی کی حیثیت سے دیکھتا ہے۔
چین کا استدلال ہے کہ اس نے قرضوں کی ادائیگی کی مدت میں توسیع ، ہنگامی قرضوں کی شکل میں اور کرونا وائرس کی وبا کے دوران عارضی طور پر سود کی ادائیگیوں کو معطل کرنے کے پروگرام کی صورت میں ریلیف دیا ہےجس کاوہ سب سے بڑے شراکت دار تھا۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس نے افریقی ممالک کے 23 غیر سودی قرضے معاف کر دیے ہیں۔
SEE ALSO: سی پیک کیا اب بھی پاکستان کے لیے ’گیم چینجر‘ ہے؟دریں اثنا، بیجنگ نے ایک نئی قسم کے مخفی قرض کا سلسلہ شروع کیا جس نے ابہام اور عدم اعتماد کو بڑھا دیا ہے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کا مرکزی بینک مؤثر طریقے سے اربوں ڈالر قرضہ دے رہا ہے جو بظاہر عام نوعیت کے غیر ملکی کرنسی کے تبادلے معلوم ہوتے ہیں۔
اس طریقہ کار کے تحت ممالک بنیادی طور پر اپنے غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی کو عارضی طور پر پورا کرنے کے لیے امریکی ڈالر جیسی وسیع پیمانے پر استعمال ہونے والی کرنسیوں کی صورت میں قرض لے سکتے ہیں۔
یہ وقتی استعمال کے لیے ہوتے ہیں اور ان کی مدت چند ماہ ہوتی ہے۔
(اس رپورٹ کے لیے ایسوسی ایٹڈ پریس سے مواد لیا گیا ہے)