ایسے میں جب چین کے دارالحکومت بیجنگ میں چار فروری سے 20فروری تک سرمائی اولمپک گیمز کا انعقاد ہو نے جا رہاہے، صحافتی آزادی سے متعلق نامور اداروں کی جانب سے ملک میں ذرائع ابلاغ کی آزادی اور قید صحافیوں کی رہائی کے لیے آواز بلند کی جا رہی ہے۔
صحافتی آزادی سے منسلک یہ ادارے صحافت کے میدان میں چین کے ریکارڈ کو ''مایوس کُن بتاتے ہیں، جن میں، بقول ان کے، صحافیوں پر پیشہ ورانہ پابندیوں کے علاوہ انھیں قید و بند کی سزائیں ملنا عام سی بات بن گئی ہے۔
آزادی صحافت کے لیے کام کرنے والے صحافیوں کے اتحاد، 'ون فری پریس کولیشن' کی جاری کردہ ایک تازہ ترین رپورٹ میں صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ملکوں میں چین کا نام سر فہرست ہے۔ اس فہرست میں قید کی سب سے زیادہ صعوبتیں برداشت کرنے والے صحافیوں کے لحاظ سےچین اور ہانگ کانگ کو دسویں، یعنی نچلی ترین سطح پر رکھا گیا ہے۔
'ون فری پریس کولیشن' 30 سے زائد ذرائع ابلاغ اور صحافیوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے گروپوں کا ایک وسیع اتحاد ہے۔
فہرست میں جمی لائی کا نام سر فہرست ہے۔ وہ ہانگ کانگ کے جمہوریت نواز روزنامہ 'ایپل ڈیلی' کے بانی ہیں۔ جن کے بعد زونگ زان کا نام آتا ہے جو ایک قانون دان تھے، جنھوں نے ایک رپورٹر کا پیشہ اپنایا۔ دونوں کو مئی 2020ء سے اب تک قید میں رکھا جا رہا ہے۔ ان کا قصور یہ ہے کہ انھوں نے یوٹیوب پر ووہان میں وبا پھیلنے سے متعلق حقائق بیان کرنے کی جسارت کی تھی۔
SEE ALSO: کووڈ 19 کا پھیلاؤ: چین کا تیسرا شہر لاک ڈاؤن کی زد میںنیویارک میں قائم 'کمیٹی ٹو پراٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے)' کے اعداد و شمار کے مطابق، گزشتہ تین برسوں سے صحافیوں کو جیل میں ڈالنے کے معاملے پر چین سب ملکوں سے آگے ہے۔ دسمبر 2021ء میں چین میں صحافتی فرائض انجام دینے والے کم از کم 50 صحافیوں کو جیل میں ڈالا گیا تھا۔ ان میں وہ صحافی بھی شامل ہیں جو کرونا وائرس کی وبا کی حقائق پر مبنی رپورٹنگ کر رہے تھے۔
صحافتی تنظیم سی پی جے کے پروگرام کوآرڈی نیٹر، اسٹیون بٹلر نے کہا ہے کہ 'کیا اس ماحول میں بین الاقوامی اولمپک کمیٹی یہ توقع کر سکتی ہے کہ سرمائی گیمز آزادانہ اور منصفانہ ماحول میں منعقد ہوسکتی ہیں، جہاں ایتھلیٹ مقابلہ کرسکیں اور اپنے عالمی خواب اور نصب العین پورے کر سکیں؟''
بٹلر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جب 2008ء میں چین نے اولمپک گیمز کی میزبانی کی تھی، تب چین نے بہت سے وعدے کیے تھے جنھیں اب تک پورا نہیں کیا گیا''۔ انھوں نے خبردار کیا کہ اولمپک تحریک (بین الاقوامی اولمپک کمیٹی) کو انتہائی چوکنا رہنے کی ضرورت ہو گی چونکہ وہ یہ گیمز چین جیسے ملک میں منعقد کررہا ہے''۔
امریکہ، برطانیہ، کینیڈا اور دیگر ملکوں نے اعلان کررکھا ہے کہ چین کے انسانی حقوق کے پست ریکارڈ کے پیش نظر، وہ سفارتی سطح پر بیجنگ گیمز کا بائیکاٹ کریں گے۔ اس اقدام کے جواب میں چین نے کہا ہے کہ ''امریکہ کو چاہیے کہ کھیلوں کو سیاست کی نذر نہ کرے''۔
SEE ALSO: چین میں سرمائی اولمپکس کے سفارتی بائیکاٹ کا اعلان کرنے والے ملکوں کی تعداد 5 ہو گئیوائس آف امریکہ کو ایک اِی میل میں بین الاقوامی اولمپک کمیٹی کی میڈیا ریلیشنز کی ٹیم نے کہا ہے کہ کمیٹی عالمی کھیلوں کے چارٹر اور کوڈ آف ایتھٹکس کے بنیادی اصولوں میں درج انسانی حقوق کی سربلندی کو فوقیت دیتی ہے۔ لیکن، ٹیم نے مزید کہا ہے کہ اولمپک کمیٹی کے پاس نہ تو کوئی قانونی جواز موجود ہے نہ ہی یہ استعداد کہ وہ قوانین میں تبدیلی لاسکے یا پھر ایک آزاد ملک کے سیاسی نظام میں کسی تبدیلی کے متعلق کچھ کہہ سکے۔
بتایا جاتا ہے کہ 'ایپل ڈیلی' کے صحافی، زونگ زان کی صحت خراب ہے، جن کی زندگی خطرے میں ہو سکتی ہے۔ صحافیوں کی تنظیم 'رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس اے)' کی جانب سے باہمت صحافی کا ایوارڈ لینے والا یہ جرات مند صحافی جیل میں بھوک ہڑتال پر ہے۔ اڑتیس سالہ زونگ زان کو اگست میں 11 روز کے لیے اسپتال داخل کیا گیا تھا۔
ان کے اہل خانہ نے زونگ زان کی گرتی ہوئی صحت کے پیش نظر ان کے علاج کا مطالبہ کیا تھا، لیکن انہیں پھر سے جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ زونگ کو کم غذائیت کھانا دیا جاتا اور صحت کی دیکھ بھال کی سہولت تک انہیں رسائی حاصل نہیں ہے۔
زونگ کے بھائی جو زونگ کا کہنا ہے کہ زونگ زان کا وزن 40 کلوگرام تک گر چکا ہے ۔
امریکی محکمہ خارجہ اور حقوق انسانی کے دیگر حلقوں کے علاوہ، 'پی اِی این' نامی تنظیم نے چین سے مطالبہ کیا ہے کہ زونگ کی گرتی ہوئی صحت کے پیش نظر انھیں فوری طور پر رہا کیا جائے۔
دوسری طرف، جمہوریت نواز احتجاج کے دوران، قومی سلامتی کے قانون کی آڑ میں ہانگ کانگ کے متعدد صحافیوں پر مقدمات درج کیے گئے تھے جنھیں کسی قانونی چارہ جوئی اور شنوائی کے بغیر جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ ادھر جمی لائی کو جمہوریت نواز احتجاج میں شرکت کے الزام پر سزا سنائی گئی ہے۔ 'ون فری پریس کولیشن' نے وان لیو سنگ کا نام درج کیا ہے، جو ریڈیو جرنسلٹ ہیں، انہیں فروری 2021ء میں ہانگ کانگ شہر کی پولیس نے گرفتار کیا تھا۔