اعلیٰ امریکی فوجی عہدے داروں نے قانون سازوں کو بتایا ہے کہ چین کی فوجی سازو سامان کی فروخت میں تیزی سے آگے بڑھنے کی صلاحیت امریکہ کو دو اہم خطوں میں مہنگی پڑ رہی ہے اور آنے والے برسوں میں اس کے مزید سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں ۔
مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیاء میں امریکی افواج کی نگران یوایس سینٹرل کمانڈ کے کمانڈروں اور یو ایس افریقی کمانڈ نے واضح طور پر چین کی جانب سے فوجی سازوسامان کی جدیدت کے متعلق تشویش کا اظہار کیا ہے جس نے پہلے ہی چین کو پینٹاگان کے مقابلے میں لا کھڑا کیا ہے۔
سینٹرل کمانڈ کے جنرل مائیکل کوریلا نے جمعرات کو گزشتہ دس برسوں میں خطے میں چین کے فوجی سازوسامان کی فروخت میں 80 فی صد اضافے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے اراکین کو بتایا کہ ’’یہ چین کی جانب سے سرایت کرنے کی صلاحیت حاصل کرنے سے پہلے کی دوڑ ہے‘‘۔
انہوں نے امریکی فوجی سازو سامان کی منظوری ملنے اور سامان کی فراہمی کے طویل انتظار کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ ’’ہمارے سیکیورٹی شراکت داروں کی سیکیورٹی کی ضروریات حقیقی ہیں اور ہم سامان فراہم کرنے کی اپنی صلاحیت کھو رہے ہیں‘‘۔
امریکی عہدےد ار کوریلا نے کہا کہ ’’چین یہ کرتا ہے کہ وہ آتے ہی اپنا پورا کیٹلاگ کھول کر سامنے رکھ دیتے ہیں۔ وہ انہیں تیزی سے مال فراہم کرتے ہیں۔ وہ ان سے حتمی صارف کا کوئی معاہدہ نہیں کرتے۔ اور وہ انہیں مالی سہولت بھی دیتے ہیں۔وہ بہت تیز ہیں‘‘۔
SEE ALSO: جنوبی افریقہ کے مشرقی ساحلوں پر روس، جنوبی افریقہ اور چین کی مشترکہ بحری مشقیںافریقی کمانڈ کے جنرل مائیکل لینگلے نے بتایا کہ افریقی براعظم میں امریکی شراکت داروں کی بھی ایسی ہی صورت حال ہے۔
لینگلے کا کہنا تھا کہ، ’’ہمارے اہم سیکیورٹی تعاون کے اقدام کے باوجود، یہ عمل زیادہ تیز نہیں ہے‘‘۔
انہوں نے قانون سازوں کو بتایا کہ خاص طور پر مغربی افریقہ میں، ساحل کے پارگھانا، کوٹ ڈی آئیوری، بینن اور ٹوگو کو آلات کی فوری ضرورت ہے۔ انہیں اب ہتھیاروں کی ضرورت ہے ۔ اس لیے وہ ان کی خرید کے بارے میں انتخاب کرتے ہیں اور وہ چین اور روس سے خرید کا غلط انتخاب کرتے ہیں خاص طور پر ہلاکت خیز امداد کے حوالے سے۔
چین کے ہتھیاروں کی فروخت کے بارے میں اس طرح کے خدشات نئے نہیں ہیں اور ہتھیاروں کی برآمدات میں واشنگٹن کے مجموعی غلبے کے باوجود یہ خدشات برقرار ہیں۔
سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (ایس آئی پی آر آئی) کے اعداد و شمار کے مطابق، 2018 سے 2022 تک امریکہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہتھیار برآمد کرنے والا ملک رہا، اور اسلحے کی تمام برآمدات میں اس کا حصہ 40 فیصد تھا۔ چین اس فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے، جس کا ہتھیاروں کی عالمی فروخت میں حصّہ صرف 5 فیصد ہے۔
SEE ALSO: چین ایسی لڑائی کی تیاری کر رہا ہے جو وہ لڑنا نہیں چاہتا: امریکی انٹیلی جنساس سال کے شروع میں جاری کردہ امریکی محکمہ خارجہ کے اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ امریکی حکومت کی طرف سے ہتھیاروں کی فروخت میں مزید اضافہ ہوا ہے جو کہ مالی سال 2022 میں تقریباً 50 فیصد اضافے کے ساتھ 51.9 بلین ڈالر تک پہنچ گیا۔ اس کا کچھ اضافہ یوکرین میں جنگ کے باعث ہوا تھا۔امریکہ کے تجارتی ہتھیاروں کی فروخت میں بھی اضافہ ہوا، جو 153.7 بلین ڈالر تک پہنچ گیا۔
لیکن امریکی دفاعی اور انٹیلی جنس حکام برسوں سے، خاص طور پر، بیجنگ اور افریقی ممالک کے درمیان ہتھیاروں کے سودوں کے اثرات کے بارے میں مسلسل خبردار کر رہے ہیں۔ فروری 2020 میں ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ چین کی جانب سے افریقی ممالک کو فوجی سازو سامان اور تکنیکی تربیت کے ساتھ فروخت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ایس آئی پی آر آئی کے ڈیٹا پر واشنگٹن میں قائم اٹلانٹک کونسل کے تجزیے پر مبنی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین نے سب صحارا افریقہ میں 2010 سے 2021 کے درمیان دو ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کے ہتھیار فروخت کیے ۔
SEE ALSO: امریکہ چین کے ہائپر سونک میزائل کو بڑا خطرہ کیوں سمجھتا ہے؟رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ چین نے 2017 اور 2020 کے دوران سب صحارا افریقہ میں امریکہ کے مقابلے میں تقریباـً تین گنا زیادہ مالیت کے ہتھیار بیچے۔
سینٹ کام اور افریکام کے کمانڈروں نے قانون سازوں کو بتایا کہ چین ہتھیاروں کی فروخت کے حوالے سے جتنا آگے بڑھے گا، امریکہ کو ان ممالک کے ساتھ کام کرنے کے لیے اتنی ہی زیادہ محنت کرنی پڑے گی۔
(اس رپورٹ کے لیے کچھ تفصیلات ایسوسی ایٹڈپریس سے لی گئیں ہیں)