چین نے پیر کو کہا کہ اس نے ایک نیا خلائی جہاز یہ جاننے کے لیے خلا میں بھیجا ہے کہ آیا اسے دوبارہ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
چین کی وزارت خارجہ نے پیر کے روز بتایا کہ بیجنگ نے جولائی میں ایک خلائی گاڑی کا تجربہ کیا تھا، جو جوہری صلاحیت کا حامل ہائپرسونک میزائل نہیں تھا جیسا کہ فنانشل ٹائمز نے رپورٹ میں کہا تھا۔
فنانشل ٹائمز نے ہفتے کے روز صورت حال کے متعلق معلومات رکھنے والے پانچ افراد کے حوالے سے کہا تھا کہ چین نے ایٹمی صلاحیت رکھنے والے ہائپرسونک میزائل کا تجربہ کیا، جس نے خلا سے پرواز کی اور اپنے ہدف کی طرف بڑھنے سے پہلے دنیا کے گرد چکر لگایا اور ہدف سے تقریباً چوبیس میل کے فاصلے پر رہا۔ اخبار کے مطابق اس تجربے نے "امریکی انٹیلی جنس کو حیران کر دیا"۔
وزارت خارجہ نے کہا کہ یہ ٹیسٹ جولائی میں ہوا تھا، اگست میں نہیں جیسا کہ فنانشل ٹائمز نے رپورٹ کیا ہے۔
وزارت کے ترجمان ژاؤ لی جیان نے بیجنگ میں ایک پریس بریفنگ میں رپورٹ کے بارے میں پوچھے جانے پر بتایا کہ یہ ایک معمول کا ٹیسٹ تھا جس کا مقصدخلائی گاڑی کو دوبارہ استعمال کرنے کی ٹیکنالوجی کی جانچ تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لی جیان نے کہا کہ اس لانچ میں میزائل کے بجائے ایک خلائی جہاز شامل کیا گیا تھا اور یہ کہ خلائی جہاز کے استعمال سے ان مہمات پر اخراجات میں کمی ہو گی، جس سے خلا کے پرامن استعمال کے لیے ایک آسان اور سستا طریقہ میسر آ سکتا ہے۔
چین کا خلائی پروگرام اس کی فوج چلاتی ہے اور فوج کا ہائپرسونک میزائل اور دیگر جدید ٹیکنالوجیز کے حصول کے ایجنڈے سے گہرا تعلق ہے، جس کے نتیجے میں چین کا امریکہ کے ساتھ طاقت کا توازن تبدیل ہو سکتا ہے۔
چین کے ترجمان ژاؤ نے کہا کہ چین خلا کے پرامن استعمال اور بنی نوع انسان کے فائدے کے لیے دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔
خلائی تجربے پر ژاؤ کا یہ بیان چین کی جانب سے چھ ماہ کے مشن پر اپنے خلائی اسٹیشن پر تین افراد پر مبنی خلابازوں کا دوسرا عملہ بھیجنے کے چند دن بعد سامنے آیا ہے۔
اپنے خلائی پروگرام کے ساتھ ساتھ، چین کی ہائپرسونک میزائل ٹیکنالوجی اور دیگر جدید شعبوں میں توسیع نے چین کے بارے میں کئی خدشات کو جنم دیا ہے، کیونکہ جنوبی اور مشرقی بحیرہ چین اور بھارت کی سرحد پر متنازعہ اونچے پہاڑوں پر بیجنگ کے دعوؤں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
جاپان نے، جو چین کے اہم علاقائی حریفوں میں سے ایک ہے، اس تجربے کو ایک نئے جارحانہ چینی ہتھیار سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ چین کے مقابلے لیے اپنے دفاع میں اضافہ کرے گا۔
چیف کابینہ سیکرٹری ہیروکازو ماتسونو نے پیر کو اس تجربے کو ایک "نیا خطرہ" قرار دیا ہے کیونکہ روایتی ہتھیاروں کی مدد سے اس خطرے سے نمٹنے میں دشواری کا سامنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ جاپان "کسی بھی فضائی خطرے" کا کھوج لگانے، اس کا پیچھا کرنے اور اسے مار مارنے کی اپنی صلاحیت میں اضافہ کرے گا۔
ماتسونو نے کہا کہ چین تیزی سے ہائپرسونک جوہری ہتھیاروں کو ترقی دے کر حملہ کرنے کی وہ صلاحیت حاصل کرنا چاہتا ہے جو میزائل شکن دفاعی نظام کا توڑ کر سکے۔
SEE ALSO: آواز کی رفتار سے 27 گنا تیز روسی جوہری میزائلانہوں نے چین پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے ارادوں کی وضاحت کیے بغیر اپنے دفاعی اخراجات، خاص طور پر جوہری اور میزائل صلاحیتوں کے حصول پر اپنے اخراجات میں اضافہ کر رہا ہے۔
ماتسونو نے کہا کہ چین کی تیزی سے پھیلتی اور سمندری اور فضائی حدود میں بڑھتی ہوئی فوجی سرگرمیاں جاپان اور بین الاقوامی برادری سمیت خطے کی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ بن گئی ہیں۔