چینی حکومت مسلم اکثریتی شہر میں ہزاروں کیمرے نصب کرے گی

ایک چینی مسلمان زائننگ میں جمعہ کی نماز کے انتظار میں

چین کی حکومت نے 2009 میں لسانی فسادات کا نشانہ بننے والے شمال مغربی شہر ارمقی میں کئی ہزار سیکیورٹی کیمرے نصب کرنے کا منصوبہ بنایا ہے تاکہ شہر کی نگرانی کو یقینی بنایا جاسکے۔

چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق حکام کی جانب سے گزشتہ سال شہر کی مختلف شاہراہوں اور مقامات پر 17 ہزار کیمرے نصب کیے گئے تھے جبکہ رواں سال کئی ہزار مزید کیمرے نصب کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔

ایجنسی کے مطابق ارمقی کے میئر جرلا عصام الدین کا کہنا ہے کہ نئے کیمروں کی تنصیب کےبعد پورے شہر کی نگرانی کو یقینی بنایا جاسکے گی۔ عصام الدین کے بقول پہلے سے نصب کیمروں کے ذریعے تاحال شہر میں چلنے والی 34 سو بسوں، 44 سو سڑکوں اور گلیوں، 270 اسکولوں اور 100 کے قریب تجارتی مراکز کی نگرانی کی جارہی ہے۔

ارمقی چین کے واحد مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ کا دارالحکومت ہے جہاں 2009 میں مقامی ایغور مسلمانوں اور ہان نسل کے چینی باشندوں کے درمیان ہونے والے فسادات میں 200 کے لگ بھگ افراد ہلاک ہوگئےتھے۔

چینی حکومت نے 2009 میں ارمقی میں ہونے والے ان فسادات کی ذمہ داری مقامی مسلم علیحدگی پسندوں پر عائد کی تھی۔

واضح رہے کہ سنکیانگ کے ایغور مسلمان چین میں اکثریت اور سیاسی اقتدار کے حامل ہان نسل کے افراد کے ہاتھوں استحصال کی شکایت کرتے آئے ہیں۔ تاہم چینی حکام کا دعویٰ ہے کہ حکومت تمام شہریوں سے یکساں سلوک کرتی ہے۔

ایغور مسلمان سنکیانگ صوبہ کو اپنا آبائی وطن قرار دیتے ہوئے اس کی علیحدہ شناخت اور تہذیب پر اصرار کرتے ہیں۔ ایغور مسلمانوں کی جانب سے یہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ چینی حکومت صوبے میں ہان باشندوں کی آباد کاری کی سرپرستی کررہی ہے تاکہ مقامی مسلمان آبادی کو اقلیت میں تبدیل کیا جاسکے۔