چین نے تبت کے عہدے داروں کو تبتی دارالحکومت لاسا کے مہلک فسادات کی چوتھی برسی سے قبل یہ ہدایات جاری کی ہیں کہ اس موقع پر امن وامان برقرار رکھنے کے اقدامات کریں۔
چین نے خود سوزی کے واقعات کے تسلسل اور وقتاً فوقتاً چین کی حکمرانی کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے پیش نظر تبت اور اس سے ملحقہ صوبوں میں سیکیورٹی بڑھا دی ہے۔
پیر کے روز بھارت میں تبت کی جلاوطن انتظامیہ نے غیر مقصدقہ رپورٹس کے حوالے سے کہا ہے کہ جمعے کے روز چین کے صوبے سیحوان کے تبتی علاقے سیرتار میں تین تبتی باشندوں نے خود سوزی کرلی۔
اگر یہ رپورٹیں درست ہیں تو ان تبتی بھگشوؤں اور راہباؤں کی تعداد کم ازکم 19 تک پہنچ چکی ہے جنہوں نے گذشتہ ایک سال کے دوران چین کے اقتدار کے خلاف احتجاجاً خود کو جلا کر ہلاک کیا ہے۔
چین کے میڈیا نے ان رپورٹوں کو مسترد کردیا ہے۔
اس علاقے میں 2008ء سے صورت حال خراب چلی آرہی ہے جن تبتی دارلحکومت لاسا اور ملحقہ صوبوں کے تبتی علاقوں میں فسادات کے دوران 22 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
بھارتی قصبے دھرم شالا میں قائم جلاوطن تبتی حکومت کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ خود سوزی کے واقعات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ تبت میں چین کی حکومت کی جانب سے حقوق دبانے کی پالیسیاں نئی بلندیوں پر پہنچ چکی ہیں۔
جب کہ چین ان مظاہروں کا الزام جلاوطن تبتی حکومت اوربالخصوص تبتیوں کے روحانی لیڈر دلائی لامہ پر عائد کرتا ہے جو 1959ء کی ناکام بغاوت کے بعد فرار ہوکر بھارت چلے گئے تھے۔