چین نے کہا ہے کہ وزیرِ خارجہ وانگ یی 30 اور 31 مارچ کو افغانستان کے پڑوسی ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کی میزبانی کریں گے جس میں افغانستان کی موجودہ سیاسی صورتِ حال، افغان عوام کو در پیش معاشی مشکلات اور دیگر معاملات زیرِ بحث آئیں گے۔
چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان وانگ ون بن نے پیر کو معمول کی بریفنگ کے دوران بتایا کہ اس اجلاس میں پاکستان، ایران، روس، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے سمیت انڈونیشیا ، قطر اور افغانستان میں طالبان کی حکومت کے وزرائے خارجہ کو مدعو کیا گیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ اجلاس افغانستان کے مسئلے پر پڑوسی ممالک کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنے میں معاون ثابت ہو گا ۔
یہ اجلاس ایک ایسے وقت ہورہا ہے جب افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان ایک مستحکم انتظامیہ قائم اور بین الاقوامی سطح پر اپنی حکومت کو تسلیم کرانے کے لیے کوشاں ہیں۔ گزشتہ برس 15 اگست کو کابل کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے افغانستان کو اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے، جب کہ عوام کو شدید معاشی مشکلات درپیش ہیں۔
چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کے مطابق افغانستان کے قائم مقام وزیرِ خارجہ امیر خان متقی اجلاس کے موقعے پر پڑوسی ممالک کے وزرائے خارجہ سے ملاقات کر کے انہیں افغان عوام کو درپیش مشکلات اور ضروریات سے آگاہ کریں گے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے پڑوسی ممالک کے اعلیٰ سفارت کار افغانستان کے مسئلے پر اپنے تحفظات سے طالبان وزیرِ خارجہ کو آگا ہ کریں گے۔
افغانستان کے پڑوسی ممالک سمیت کسی بھی ملک نےابھی تک طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ عالمی برادری کا طالبان سے مطالبہ ہے کہ وہ افغانستان میں ایک جامع حکومت قائم کریں جس میں افغانستان کے تمام نسلی گروہوں کی نمائندگی ہو۔
Your browser doesn’t support HTML5
کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر نعیم احمد کا کہنا ہے کہ روس، چین اور بعض دیگر پڑوسی ممالک کے افغانستان کے طالبان سے گہرے مراسم ہیں۔ اس لیے یہ ممالک طالبان پر اندرونی اور بیرونی معاملات میں اعتدال اختیار کرنے اور ایک جامع حکومت کی تشکیل کے لیے دباؤ ڈال سکتے ہیں۔
نعیم احمد کے مطا بق افغانستان کا معاشی اور سیاسی استحکام خطے کے امن و استحکام اور ترقی کے لیے ضروری ہے۔ یہ مقصد بین الاقوامی برادری کے تعاون سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ان کے بقول افغانستان کے پڑوسی ممالک اسی صورت طالبان کی مدد کر سکتے ہیں اگر طالبان بھی بین الاقوامی برداری کے تحفظات دور کرنے میں سنجیدہ دکھائی دیں ۔
حکومت سنبھالنے کے بعد سے اب تک عالمی برادری کے مطالبات پر طالبان نے کچھ زیادہ پیش رفت نہیں کی۔ انہوں نے خواتین اور لڑکیوں پر تعلیم اور روزگار کے دروازے کھولنے کے معاملے میں کچھ خاص لچک نہیں دکھائی بلکہ وہ خواتین کے سفر کے لیے محرم کی موجودگی کا دائرہ وسیع کرتے جا رہے ہیں۔
افغان امور کے تجزیہ کار طاہر خان کا کہنا ہے کہ افغانستان کے پڑوسی ممالک طالبان پر شاید بہت زیادہ اثر انداز نہ ہو سکیں کیوں کہ ابھی تک بین الاقوامی برادری کے مطالبات کے باوجود طالبان کی پالیسیوں میں کوئی ٹھوس تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔
طاہر خان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں انسانی حقوق کی صورتِ حال اطمینان بخش نہیں ہے اور طالبان کےزیرِ قبضہ افغانستان میں میڈیا کی آزادی بھی محدود ہوتی جا رہی ہے۔
نعیم احمد کے مطابق اس صورتِ حال میں اگر طالبان نے چین میں ہونے والی کانفرنس میں شریک ممالک کے مشوروں پر توجہ نہ دی تو پھر ان کے الگ تھلگ ہونے کا خدشہ بڑھ جائے گا۔
طالبان کا مؤقف ہے کہ ان کی حکومت میں تمام افغان دھڑوں اور نسلی گروہوں کی نمائندگی ہے اور لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے اور خواتین کو کام کرنے کی آزادی حاصل ہے ۔
Your browser doesn’t support HTML5
طالبان کا دعویٰ ہے کہ افغانستان میں کسی عسکریت پسند گروپ کو فعال ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ طالبان متعدد باراس طرح کے دعوؤں کا اعادہ کر چکے ہیں لیکن دیگر ممالک طالبان کے ان دعوؤں کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں۔
طاہر خان کا کہنا ہے کہ طالبان سے پہلے بھی یہ مطالبات ہوتے رہے ہیں لیکن وہ نہیں سمجھتے کہ چین میں ہونے والی کانفرنس افغانستان میں بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکے گی۔
دوسری جانب پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی چین میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کے لیے منگل کو چین روانہ ہوئے۔
ایک بیان میں وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بیجنگ میں افغانستان سے متعلق امریکہ، چین ،پاکستان اور روس کے توسیع شدہ ٹرائیکا کا بھی اجلاس ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان، چین اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کا بھی سہ فریقی اجلاس ہوگا۔
وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وہ اس موقعے پر روس کے وزیرِ خارجہ سرگئی لاروف سےبھی ملاقات کریں گے اور ان سے اسلامی تعاون تنظیم 'او آئی سی'کی طرف روس اور یوکرین کے درمیان ثالثی کی پیشکش پر بھی تبادلۂ خیال کریں گے۔
افغانستان کے پڑوسی ممالک کے وزرائے خارجہ کے پہلے اجلاس کی صدارت آٹھ ستمبر 2021 کو پاکستان نے کی تھی جب کہ دوسرا اجلاس 27اکتوبر 2021 کو ایران کے دارالحکومت تہران میں منعقد ہوا تھا ۔