امریکہ میں زیادہ سے زیادہ لیتھیئم کے ذخائر کی کھوج جاری ہے۔ اس حوالے سے کچھ منصوبوں پر کام بھی ہو رہا ہے البتہ کچھ حلقے اس کی مخالفت بھی کر رہے ہیں۔
امریکہ کو ماحول دوست توانائی کے استعمال کا ہدف پورا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ لیتھیئم کی ضرورت ہو گی۔ جس کے لیے کیمیائی دھاتوں کی کان کنی کی صنعت سے وابستہ کمپنیاں بھی تیاری کر رہی ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ معدنی ذخائر کا حصول ممکن بنا سکیں۔ البتہ اس میں ماحولیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے رضا کاروں، قدیم قبائل یا گروہوں اور حکومتی اداروں کی جانب سے کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
لیتھیئم کے ذخائر دنیا کے مختلف خطوں میں موجود ہیں۔ امریکہ میں اس دھات کی ایک کان نیواڈا میں ہے۔ یہ دھات ایسی بیٹریاں بنانے کے لیے انتہائی اہم ہے جو بار بار چارج کی جا سکیں اور جن گاڑیوں یا دیگر ذرائع آمد و رفت میں یہ بیٹریاں استعمال ہوتی ہیں ان سے کاربن کا اخراج انتہائی کم ہوتا ہے۔ ان گاڑیوں کو ماحول دوست قرار دیا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں سال 2020 میں لیتھیئم کی طلب تین لاکھ 50 ہزار ٹن تھی۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ 2030 میں اس کی طلب چھ گنا زیادہ ہو گی۔
امریکہ میں لیتھیئم کے ممکنہ حصول کے لیے نارتھ کیرولائنا، کیلی فورنیا اورنیواڈا میں کان کنی کے منصوبے جاری ہیں۔
نیواڈا میں لیتھیئم سے متعلق سرکاری امور کے عہدیدار ٹِم کرولی کا کہنا تھا کہ لیتھیئم کی طلب کے حوالے سے جو پیش گوئی کی گئی ہے ابھی تک اس کی طلب میں اتنا اضافہ نہیں ہوا۔
واضح رہے کہ لیتھیئم کا ایک بڑا حصہ جنوبی امریکہ کے ممالک اور آسٹریلیا سے برآمد کیا جاتا ہے جب کہ چین کو عالمی سطح پر لیتھیئم بیٹریاں سپلائی کرنے میں برتری حاصل ہے۔
لیتھیئم کی عالمی برآمد میں امریکہ کا حصہ صرف دو فی صد ہے جب کہ امریکہ میں اس دھات کے ذخائر چار فی صد ہیں۔ دنیا میں لیتھیئم کے سب سے بڑے ذخائر چلی میں ہیں۔
امریکہ میں مقامی سطح پر لیتھیئم کے زیادہ سے زیادہ حصول کی کوشش کی جا رہی ہے جس کے لیے زمین کی سطح پر اس کو بنانے یا کان کنی کے ذریعے نکال کر اس کی پروسسینگ ہو رہی ہے۔
یونیورسٹی آف نیواڈا کے انوائرمنٹل سائنسز کے پروفیسر گیلن ملر کا کہنا ہے کہ یہ منصوبے آنے والے وقتوں میں ماحولیات کے لیے سود مند ثابت ہوں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مقامی سطح پر اس دھات کا حصول ممکن ہونا بہت اہمیت رکھتا ہے، کیوں کہ امریکہ بھی وہ سب کچھ کر سکتا ہے جو اس وقت چین کر رہا ہے۔
واضح رہے کہ لیتھیئم کو زمین پر پائی جانے والی سب سے کم وزن دھات بھی کہا جاتا ہے۔ یہ دھات 200 سال قبل سوئیڈن کے ایک کیمیا دان جان آ گسٹ نے دریافت کی تھی۔ اس کے بعد سے لیتھیئم بطور دھات یا اس کے مرکبات کو نفسیاتی امراض کی ادویات سے لے کر دیگر بہت سے امور کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
حالیہ برسوں میں لیتھیئم کا استعمال بہت زیادہ بڑھ گیا ہے کیوں کہ اسے بجلی سے چلنے والی الیکٹرک اور ہائبرڈ گاڑیوں کی بیٹریوں میں بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ لیتھیئم کا استعمال موبائل فون اور لیپ ٹاپ کی بیٹریوں میں بھی ہو رہا ہے۔
امریکہ میں جو بائیڈن انتظامیہ نے ایک منصوبہ بنایا ہے کہ آنے والے برسوں میں الیکٹرک گاڑیوں کے لیے لگ بھگ پانچ لاکھ چارجنگ اسٹیشن بنائے جائیں گے۔جس کی وجہ سے الیکٹرک گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں جیسے ٹیسلا وغیرہ کو بیٹریوں کے لیے زیادہ لیتھیئم درکار ہو گا۔