شمالی کوریا نے جمعرات کو اعلان کیا تھا کہ وہ طویل فاصلے تک جانے والے راکٹوں کے مزید تجربات کرنے کے علاوہ تیسرا جوہری تجربہ بھی کرے گا۔
واشنگٹن —
شمالی کوریا کی جانب بیلسٹک میزائل کے نئے تجربے کی دھمکی کے بعد چین نے عالمی طاقتوں پر زور دیا ہے کہ وہ پیانگ یانگ حکومت کے ساتھ معطل شدہ چھ فریقی مذاکرات دوبارہ شروع کریں۔
خیال رہے کہ شمالی کوریا نے جمعرات کو اعلان کیا تھا کہ وہ طویل فاصلے تک جانے والے راکٹوں کے مزید کئی تجربات کرنے کے علاوہ تیسرا جوہری تجربہ بھی کرے گا۔
شمالی کوریا نے یہ دھمکی اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے گزشتہ روز ایک قرارداد منظور کرنے کے ردِ عمل میں دی ہے جس میں پیانگ یانگ کی جانب سے 12 دسمبر کو کیے گئے راکٹ تجربے کی مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ بطورِ سزا اس پر عائد اقتصادی پابندیاں مزید سخت کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔
جمعرات کو چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ہونگ لی نے خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی پر اپنا ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے جزیرہ نما کوریا کی صورتِ حال کو پیچیدہ اور حساس قرار دیا۔
ترجمان نے تمام فریقین کو تحمل کا مظاہرہ کرنے اور ایسے اقدامات سے گریز کرنے کی تلقین کی جس سے خطے میں صورتِ حال مزید سنگین ہونے کا اندیشہ ہو۔
چین مدتِ دراز سے شمالی کوریا کا قریب ترین اتحادی رہا ہے اور ماضی میں بھی اقوامِ متحدہ میں شمالی کوریا کی جوہری سرگرمیوں پر اس کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کے بجائے مذاکرات کے ذریعے تنازع حل کرنے پر زور دیتا آیا ہے۔
تاہم شمالی کوریا کےخلاف سلامتی کونسل میں رواں ہفتے منظور کی جانے والی قرارداد کی منظوری میں چین کی منشا بھی شامل تھی۔
چین نے امریکہ کی جانب سے تجویز کی جانے والی قرارداد پر بحث میں حصہ لیا تھا لیکن شمالی کوریا پر نئی پابندیاں عائد کرنے کی مخالفت کی تھی۔
ماضی میں جب شمالی کوریا نے 2006ء اور 2009ء میں جوہری تجربات کیے تھے تو چین نے اقوامِ متحدہ کی جانب سے پیانگ یانگ پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کی قراردادوں کی حمایت کی تھی۔
تاہم ان پابندیوں کے باوجود شمالی کوریا بین البراعظمی راکٹوں کی تیاری اور اپنے جوہری پروگرام پر کام جاری رکھے ہوئے ہے جو، تجزیہ کاروں کی رائے میں، اس حقیقت کا اظہار ہے کہ چین پیانگ یانگ حکومت پر محدود اثر و رسوخ رکھتا ہے۔
خیال رہے کہ شمالی کوریا نے جمعرات کو اعلان کیا تھا کہ وہ طویل فاصلے تک جانے والے راکٹوں کے مزید کئی تجربات کرنے کے علاوہ تیسرا جوہری تجربہ بھی کرے گا۔
شمالی کوریا نے یہ دھمکی اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے گزشتہ روز ایک قرارداد منظور کرنے کے ردِ عمل میں دی ہے جس میں پیانگ یانگ کی جانب سے 12 دسمبر کو کیے گئے راکٹ تجربے کی مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ بطورِ سزا اس پر عائد اقتصادی پابندیاں مزید سخت کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔
جمعرات کو چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ہونگ لی نے خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی پر اپنا ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے جزیرہ نما کوریا کی صورتِ حال کو پیچیدہ اور حساس قرار دیا۔
ترجمان نے تمام فریقین کو تحمل کا مظاہرہ کرنے اور ایسے اقدامات سے گریز کرنے کی تلقین کی جس سے خطے میں صورتِ حال مزید سنگین ہونے کا اندیشہ ہو۔
چین مدتِ دراز سے شمالی کوریا کا قریب ترین اتحادی رہا ہے اور ماضی میں بھی اقوامِ متحدہ میں شمالی کوریا کی جوہری سرگرمیوں پر اس کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کے بجائے مذاکرات کے ذریعے تنازع حل کرنے پر زور دیتا آیا ہے۔
تاہم شمالی کوریا کےخلاف سلامتی کونسل میں رواں ہفتے منظور کی جانے والی قرارداد کی منظوری میں چین کی منشا بھی شامل تھی۔
چین نے امریکہ کی جانب سے تجویز کی جانے والی قرارداد پر بحث میں حصہ لیا تھا لیکن شمالی کوریا پر نئی پابندیاں عائد کرنے کی مخالفت کی تھی۔
ماضی میں جب شمالی کوریا نے 2006ء اور 2009ء میں جوہری تجربات کیے تھے تو چین نے اقوامِ متحدہ کی جانب سے پیانگ یانگ پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کی قراردادوں کی حمایت کی تھی۔
تاہم ان پابندیوں کے باوجود شمالی کوریا بین البراعظمی راکٹوں کی تیاری اور اپنے جوہری پروگرام پر کام جاری رکھے ہوئے ہے جو، تجزیہ کاروں کی رائے میں، اس حقیقت کا اظہار ہے کہ چین پیانگ یانگ حکومت پر محدود اثر و رسوخ رکھتا ہے۔