پاکستان میں توہینِ مذہب کے الزام کا سامنا کرنے والے چینی انجینئر کو 14 روز جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا ہے۔
صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے اپر کوہستان میں داسو ڈیم کے منصوبے پر کام کرنے والے چینی انجینئر کو پولیس نے مبینہ طور پر توہین مذہب کے الزام میں تحویل میں لیا تھا۔
چینی باشندے کو منگل کو ایبٹ آباد کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں اُن کا 14 روز کا جوڈیشل ریمانڈ منظور کر لیا گیا۔
حکام کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی خطرات کے پیشِ نظر چینی باشندے کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے اپر کوہستان سے ایبٹ آباد منتقل کیا گیا۔ تاہم یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ چینی باشندے کو کس جیل میں منتقل کیا گیا ہے۔
داسو پولیس اسٹیشن کے ایک اہلکار نے وائس آف امریکہ کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ ابتدائی رپورٹ کے مطابق یہ واقعہ چند روز قبل اُس وقت پیش آیا جب چینی انجنیئر نے مزدوروں کے کام کی سست رفتاری پر اعتراض کیا جس کے جواب میں مزدوروں نے نماز کے وقفے کی بات کی۔
پولیس اہلکار کے مطابق مزدوروں اور چینی انجینئر کے درمیان تکرار لفظی جنگ میں تبدیل ہو گئی اور یوں مزدوروں نے سائٹ پر کام روک دیا۔ جس کے بعد انہوں نےاحتجاج کرتے ہوئے چینی انجینئر پر توہینِ مذہب کا الزام لگا کر شاہراہِ قراقرم کو بلاک کر دیا۔
معاملے کی حساسیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ضلعی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے وائس آف امریکہ کو نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ برسین کے علاقے میں ہونے والے اس احتجاج میں 400 سے 600 مظاہرین شریک تھے۔ یہ احتجاج اس وقت ختم ہوا جب احتجاج کرنے والوں کو چینی انجینئر کو پولیس تحویل میں لینے کی یقین دہانی کرائی گئی۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک تصویر میں ایک چینی باشندے کو پولیس کی تحویل میں دیکھا جا سکتا ہے۔
پاکستان کے مختلف علاقوں میں گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران توہینِ مذہب کے متعدد واقعات رپورٹ ہوتے رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ہی صوبۂ پنجاب میں ایک خاتون اور ان کے بیٹے کو توہینِ مذہب کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
تاہم ایسا پہلی بار ہو اہے کہ پاکستان میں کسی غیر ملکی کو توہینِ مذہب کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہو۔
SEE ALSO: مشال خان کی چھٹی برسی؛ توہینِ مذہب کے جھوٹے الزامات کی شکایات برقرارواضح رہے کہ اپر کوہستان کے مختلف علاقوں اور گلگت بلتستان کے دیامیر بھاشا میں کئی چینی باشندے پانی جمع کرنے اور بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کی تعمیر پر کام کر رہے ہیں۔
ضلعی اہلکار کے مطابق حالات کی سنگینی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مقامی علما اور عمائدین کا جرگہ بلانے پر غور کیا جا رہا ہے تاکہ معاملے کو حل کیا جا سکے۔ مزدوروں اور چینی انجینئروں کے کیمپ کی سیکیورٹی بھی مزید سخت کر دی گئی ہے۔
مقامی سطح پر تنازعات کے تصفیے کے لیے بنائی جانے والی کمیٹی کے ایک رکن مولانا عبدالعزیز نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ بظاہر یہ واقعہ جمعے کے روز کسی وقت پیش آیا تھا جس میں کمپنی میں کام کرنے والے مقامی افراد کو چینی انجینئر نے نماز کی ادائیگی کے بعد تاخیر سے آنے پر ڈانٹا تھا۔
ان کے بقول، مقامی مزدوروں نے چینی انجینئر کے نماز سے متعلق الفاظ کو توہینِ مذہب قرار دیا۔ جس کے احتجاج کی کال دی گئِ۔
SEE ALSO: ننکانہ صاحب: توہینِ مذہب کےمبینہ ملزم کا قتل ، 70 افراد گرفتارمولانا عبدالعزیز کے مطابق یہ حساس معاملہ ہے اور وہ اس معاملے پر جرگے میں تفصیلی جائزہ لے رہے ہیں۔ اگر اس نوعیت کا واقعہ واقعی رونما ہوا ہے تو ملوث شخص کو پاکستانی قوانین کے تحت سزا دینی چاہیے اور اگر ایسا واقعہ سرے سے ہوا ہی نہیں تو مستقبل میں اس قسم کے الزامات کے انسداد کے لیے کارروائی کی جانی چاہیے۔
توہینِ مذہب کا الزام درست ہوا تو شہری کو قونصلر تحفظ فراہم کریں گے: چین
چین نے کہا ہے کہ وہ پاکستان میں اپنے ایک شہری پر توہینِ مذہب کے الزام میں گرفتاری کے معاملے کو دیکھ رہا ہے۔
چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان وانگ وین بن نے منگل کو بیجنگ میں معمول کی پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ اگر چینی شہری اس واقعے میں ملوث ہوئے تو پاکستان میں چین کا سفارت خارنہ اپنی ذمہ داری کے دائرے میں رہتے ہوئے انہیں قونصلر تحفظ اور مدد فراہم کرے گا۔
ترجمان نے کہا کہ بیجنگ نے ہمیشہ بیرونی ممالک میں کام کرنے والے اپنے شہریوں کو باور کرایا ہے کہ وہ میزبان ممالک کے مقامی قوانین، ضوابط اور مقامی رسم و رواج کا احترام کریں۔
پاکستان میں اگرچہ توہینِ مذہب کی انتہائی سزا سزائے موت ہے لیکن اب تک کسی بھی مجرم کے لیے سزائے موت پر عمل درآمد نہیں ہوا ہے لیکن مشتعل ہجوم کے ہاتھوں توہین مذہب کے ملزموں کے ہلاکت کے واقعات متعدد بار پیش آ چکے ہیں۔
دسمبر 2021 میں سیالکوٹ میں ایک فیکٹری میں کام کرنے والے سری لنکن مینجر کو مشعل ہجوم نے توہینِ مذہب کا الزام عائد کر نے کے بعد تشدد کر کے ہلاک کر دیا تھا۔
اپر کوہستان کی صورتِ حال
اپر کوہستان سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی سجمل کوہستانی نے نامہ نگار شمیم شاہد کو بتایا ہے کہ داسو ڈیم کی سائٹ اور رہائشی کیمپ جانے والی سڑکوں پر پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے جب کہ تعمیری کام فی الحال معطل ہے۔
سجمل کوہستانی کے مطابق تمام چینی باشندے رہائشی کیمپوں میں موجود ہیں جب کہ مقامی مزدور، ڈرائیورز اور دیگر عملہ بھی کام پر نہیں گیا۔
ان کے بقول، چین اور پاکستان کو براستہ کوہستان اور گلگت بلتستان ملانے والی شاہراہ قراقرم پر آمد و رفت کا سلسلہ بھی بحال ہے۔
ہزارہ ڈویژن کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس کے ترجمان کے مطابق چینی باشندے کو حراست میں لے کر مزید تحقیقات کی جا رہی ہیں جب کہ حالات اب قابو میں ہیں۔
SEE ALSO: داسو ڈیم پر کام کرنے والے چینی انجینئرز پر حملے میں ملوث ملزمان کو سزائے موتچودہ جولائی 2021 کو اسی علاقے میں دہشت گردوں کے مبینہ حملے میں نو چینی انجینئرز سمیت 13 افراد ہلاک ہوئے تھے جس کے بعد داسو ڈیم کی تعمیر کا سلسلہ کئی مہینوں تک معطل رہا تھا۔
علاوہ ازیں سن 2020 میں کرونا سے پیدا ہونے والی صورتِ حال کے پیشِ نظر پاکستان اور چین کے درمیان شاہراہ قراقرم کے راستے دو طرفہ زمینی تجارت کا سلسلہ بھی لگ بھگ تین برسوں کے بعد چند روز پہلے ہی بحال ہوا ہے۔
اس معاملے پر بات کرتے ہوئے خیبر پختونخوا کے سابق سیکریٹری داخلہ سید اختر علی شاہ کہتے ہیں کہ چین کے انجینئروں میں شاید علاقائی سطح پر ثقافتی حساسیئت کی معلومات کا فقدان ہو۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک ایسے وقت میں جب دونوں ممالک کے درمیان کئی برس بعد زمیںی سطح پر تجارت شروع ہوئی ہےاس کے اوائل میں ہی اس طرح کا کوئی واقعہ رونما ہونا بہت ہی المناک ثابت ہو سکتا ہے۔
سید اختر علی شاہ کے مطابق جب بھی کسی دوسری ثقافت کے لوگ آئیں تو ان کی مقامی روایات کے حوالے سے بریفنگ ہونی چاہیے کہ وہاں کس نوعیت کی گفتگو کرنی ہے۔
دوسری جانب ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بعض اوقات کچھ لوگ اپنے ذاتی مفادات کے لیے ثقافتی روایات کو ایشو بنا کر کوتاہیوں پر پردہ ڈالتے ہیں یا پھر مذہب کا سہارا لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص ڈیوٹی سے غیر حاضر ہو، تاخیر سے کام پر آئے یا کام نہیں کر رہا ہو، تو بجائے اس کا جواب دیا جائے، مذہب کا استعمال کر کے الزام لگا دیا جاتا ہے۔
انہوں تجویز دی کہ ایسے منصوبوں پر کام کرنے والے تمام افراد کی سوچ و فکر کی متواتر اسکریننگ ہونی چاہیے۔