جنوری 2009ء میں امریکی صدر براک اوباما نے سی آئی اے سے حراست میں لینے کا اختیار واپس لے لیا تھا۔ اس فیصلے کا مطلب یہ ہوا کہ اب سی آئی اے دنیا بھر میں خفیہ قیدخانے چلانے کی مجاز نہیں رہی: ترجمان سی آئی اے
واشنگٹن —
امریکی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی نے سی آئے اے کے سابق سربراہ ڈیوڈ پیٹرئیس کی مسٹریس اور سوانح نگار کے اس دعوے کی تردید کی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ستمبر میں بن غازی کے امریکی قونصل خانےپر ہونے والے حملے سے قبل ایجنسی نے شدت پسندوں کو حراست میں لے رکھا تھا۔
سی آئی اے کے ترجمان پریسٹن گولسون نے کہا ہے کہ، ’ یہ تاثر دینا کہ ایجنسی ابھی تک حراست میں لینے کا کام کرتی ہے، لاعلمی پر مبنی اور بے بنیاد ہے‘۔
جنوری 2009ء میں امریکی صدر براک اوباما نے سی آئی اے سے حراست میں لینے کا اختیار واپس لے لیا تھا۔ اس فیصلے کا مطلب یہ ہوا کہ اب سی آئی اے دنیا بھر میں خفیہ قیدخانے چلانے کی مجاز نہیں رہی۔
گذشتہ ماہ ریاست کولوراڈو کی یونیورسٹی آف ڈینور میں تقریر کرتے ہوئے، پیٹرئیس کی سوانح نگار پولا براڈ ویل نے کہا تھا کہ بن غازی کا حملہ دراصل شہر میں قائم سی آئی اے کے تہ خانے میں بند ملیشیا کے ارکان کو چھڑانے کی ایک کوشش تھی۔ حملے میں چار امریکی ہلاک ہوئے، جن میں لیبیا میں امریکی سفیر کرسٹوفر سٹیونز بھی شامل تھے۔
یونیورسٹی نے تقریر کی وڈیو یوٹیوب پر ڈالی تھی۔
براڈویل نے یہ نہیں بتایا کہ اُنھیں یہ اطلاع کہاں سے ملی، لیکن اُنھوں نے کہا کہ اس کی ابھی تک تصدیق باقی ہے۔ کچھ رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اُن کو یہ تفصیل فاکس نیوز کی طرف سے دی گئی ایک رپورٹ سے حاصل ہوئی ہو، جس کی نشاندہی اُنھوں نے ایک دوسری معلومات کے حوالے کے طور پر کی تھی۔
سی آئی اے کے ترجمان پریسٹن گولسون نے کہا ہے کہ، ’ یہ تاثر دینا کہ ایجنسی ابھی تک حراست میں لینے کا کام کرتی ہے، لاعلمی پر مبنی اور بے بنیاد ہے‘۔
جنوری 2009ء میں امریکی صدر براک اوباما نے سی آئی اے سے حراست میں لینے کا اختیار واپس لے لیا تھا۔ اس فیصلے کا مطلب یہ ہوا کہ اب سی آئی اے دنیا بھر میں خفیہ قیدخانے چلانے کی مجاز نہیں رہی۔
گذشتہ ماہ ریاست کولوراڈو کی یونیورسٹی آف ڈینور میں تقریر کرتے ہوئے، پیٹرئیس کی سوانح نگار پولا براڈ ویل نے کہا تھا کہ بن غازی کا حملہ دراصل شہر میں قائم سی آئی اے کے تہ خانے میں بند ملیشیا کے ارکان کو چھڑانے کی ایک کوشش تھی۔ حملے میں چار امریکی ہلاک ہوئے، جن میں لیبیا میں امریکی سفیر کرسٹوفر سٹیونز بھی شامل تھے۔
یونیورسٹی نے تقریر کی وڈیو یوٹیوب پر ڈالی تھی۔
براڈویل نے یہ نہیں بتایا کہ اُنھیں یہ اطلاع کہاں سے ملی، لیکن اُنھوں نے کہا کہ اس کی ابھی تک تصدیق باقی ہے۔ کچھ رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اُن کو یہ تفصیل فاکس نیوز کی طرف سے دی گئی ایک رپورٹ سے حاصل ہوئی ہو، جس کی نشاندہی اُنھوں نے ایک دوسری معلومات کے حوالے کے طور پر کی تھی۔