عمران خان کی اے پی سی میں شرکت پر آمادگی؛ثالثی کے لیے متحرک ’میڈی ایٹرز‘ کون ہیں؟

فائل فوٹو۔

پاکستان تحریکِ انصاف کی جانب سے ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل بیٹھنے کا عندیہ دیا جا رہا ہے۔ یہ پیغام ایسے وقت میں سامنے آ رہا ہے جب ملک میں سیاسی بحران ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔

پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان اپنے سیاسی مخالفین کے بارے میں سخت موقف رکھنے کی شہرت رکھتے ہیں تاہم حالیہ دنوں میں انہوں ںے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی ہے۔حال ہی میں سول سوسائٹی کے ارکان سے ملاقات میں انہوں نے مجوزہ کثیر الجماعتی کانفرنس میں شرکت کا بھی عندیہ دیا ہے۔

کثیر الجماعتی کانفرنس کی تجویز پر رضامندی سے متعلق پی ٹی آئی کے نائب صدر فواد چوہدری نے بھی تصدیق کردی ہے۔ فواد چوہدری کے مطابق عمران خان نے اِس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ایک آل پارٹیز کانفرنس ہو، جس میں آئندہ انتخابات پر بات ہو۔ سیاسی جماعتیں ساتھ بیٹھ کر الیکشن کا لائحہ عمل بنائیں۔ اُن کے مطابق عمران خان سے بات ہوگئی ہے اور یہ سلسلہ اب آگے بڑھے گا۔

فواد چوہدری نے تصدیق کی کہ اِس سلسلے میں سول سوسائٹی کے ارکان نے عمران خان سے ملاقات کر کے اُنہیں گفت و شنید پر آمادہ کیا ہے۔ عمران خان کے ساتھ ملاقات کرنے والوں میں سول سوسائٹی کے لوگ، صحافی اور وکلاء شامل تھے۔

خیال رہے عمران خان نے گزشتہ ہفتے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ سب سے بات کرنے کے لیے تیار ہیں جب کہ ماضی میں وہ اپنے انٹرویوز میں اکثر کہا کرتے تھے کہ وہ کسی سے بھی بات نہیں کریں گے۔

مبصرین سمجھتے ہیں کہ اب برف پگھل رہی ہے اور سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو احساس ہو رہا ہے کہ تمام مسائل کا حل آپس کی گفتگو سے ہی ممکن ہے۔

منگل کے روز عمران خان کی عدالتِ عالیہ لاہور میں پیشی کو بھی اس پیش رفت کی علامت قرار دیا جارہا ہے۔ عمران خان عدالت میں پیش ہونے کے لیے اپنے حامیوں کے قافلوں، حفاظتی اقدامات اور جیمر والی گاڑی کے بغیر ہی عدالت پہنچ گئےتھے۔


پاکستان میں بڑھتے سیاسی بحران کو روکنے کے لیے پاکستان کی سول سوسائٹی ملک کی تمام بڑی چھوٹی سیاسی جماعتوں اور اُن کے سربراہوں کو ایک میز پر لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اِس سلسلے میں سو سے زائد ارکان اور تنظیموں کے نمائندے مل کر کوشش کر رہے ہیں کہ سیاسی بحران کا حل ڈھونڈا جائے۔

اس میں سول سوسائٹی کی تنظیمیں، بار کونسلز، انسانی حقوق کی تنظیمیں، صحافی، ایڈیٹرز، خواتین کے حقوق کی تنظمیں، ٹریڈ یونینز اور دانشور شامل ہیں۔ اِس کے علاوہ 33 مختلف تنظیمیں بھی اس کوشش میں شامل ہیں۔ سیاسی مفاہمت کے لیے متحرک ہونے والی سول سوسائٹی کے ارکان ’میڈی ایٹرز‘ نامی پلیٹ فورم سے فعال ہوئے ہیں۔

سول سوسائٹی ایسا کیوں کر رہی ہے؟

اس پلیٹ فورم کے کوارڈینیٹر اور سینئر صحافی امتیاز عالم بتاتے ہیں کہ اُن کے پاس فرشتے نہیں آئے بلکہ وہ 50 برس سے زائد عرصے سے ملک میں جمہوریت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اُنہیں نظر آیا کہ سیاست دانوں کا جھگڑا اتنا بڑھ گیا ہے کہ جس سے انتخابی عمل مشکوک ہو سکتا ہے اور سیاسی اور آئینی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔

اُن کے مطابق سول سوسائٹی نے اِن خطرات کے پیشِ نظر وکلا تنظیموں، صحافتی تنظیموں اور دیگر مدبرین سے بات کر کے ایک اتفاق رائے پیدا کیا ہے۔ وہ ایک نقطہ یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر ایک آل پارٹیز کانفرنس میں انتخابات کے فریم ورک اور اس کے وقت کے تعین کے لیے متفقہ راستہ نکالیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس مجوزہ آل پارٹیز کانفرنس کی میزبانی ’میڈی ایٹرز‘ کے نام سے بنایا گیا گروپ کرے گا۔

امتیاز عالم نے کہا کہ ہماری خواہش ہوگی کہ آل پارٹیز کانفرنس میں جو بھی طے ہو وہ پارلیمنٹ میں جائے اور اُس پر قانون سازی ہو جس میں پی ٹی آئی سمیت تمام جماعتیں شامل ہوں۔

عمران خان کا جواب؟

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے امتیاز عالم نے کہا کہ اِسی سلسلے میں’ میڈی ایٹرز‘ کے ایک سات رکنی وفد نے منگل کو عمران خان سے ملاقات کی تھی۔

اس ملاقات میں سینئر صحافی حسین نقی، سی پی این ای کے صدر کاظم خان، سینئر صحافی مجیب الرحمٰن شامی، امتیاز عالم، سہیل وڑائچ، لاہور ہائیکورٹ بار کی سیکرٹری صباحت رضوی اور پنجاب بار کونسل کے ارکان شامل تھے۔


ملاقات کا احوال بتاتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ عام طور پر یہی کہا جاتا تھا کہ عمران خان بات چیت کے لیے تیار نہیں ہیں، لیکن اُن کے وفد سے بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ وہ سول سائٹی کی تجویز کردہ آل پارٹیز کانفرنس میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں جس کا ایک نکاتی ایجنڈا آزادانہ اور منصافانہ انتخابات کے لیے تمام جماعتوں میں اتفاق رائے ہو گا۔

پاکستان میں جمہوری اقدار پر نظر رکھنے والے غیر سرکاری ادارے پاکستان انسٹیٹوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرینسی(پلڈاٹ) کے صدر احمد بلال محبوب اِس سارے عمل کو مثبت سمجھتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ جس طرح سے حالات چل رہے ہیں اِس میں پریشانی کی بات ہی یہ ہے کہ بڑی سیاسی جماعتیں آپس میں بیٹھ کر انتخابات کے وقت اور تاریخ کا تعین کیوں نہیں کرتیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ’ میڈی ایٹرز‘ کے اِس عمل کے نتیجے میں اگر سیاسی جماعتیں اکٹھی بیٹھ جاتی ہیں تو یہ اور بہت اچھی بات ہے۔

پہلا مرحلہ کیا ہے؟

میڈی اینٹرز کے کوارڈینیٹر امتیاز عالم بتاتے ہیں کہ ایجنڈے کے تحت اُن کی تنظیم پہلے مرحلے میں تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین سے ملے گی۔ جس کے لیے الگ الگ وفود بنا دیے گئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ عمران خان کے بعد بدھ کو جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق سے لاہور میں وفد کی ملاقات ہو گی۔

SEE ALSO: سیاسی فضا میں بڑھتی کشیدگی؛کیا انتخابات کے بعد بحران ختم ہو سکے گا؟

امتیاز عالم نے بتایا کہ میڈی ایٹرز کے پلیٹ فورم سے مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین کو خطوط بھی لکھے گئے ہیں۔ ان قائدین اور جماعتوں میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، شریک چئیرمین آصف زرداری، جمعیت علماء اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ، ڈیموکریٹک موومنٹ کے صدر احسن داوڑ، آفتاب شیر پاو، سندھی عوامی تحریک کے صدر، ایم کیو ایم سمیت دیگر جماعتیں بھی شامل ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ حکمران اتحاد پی ڈی ایم میں شامل نصف سے زیادہ سیاسی جماعتوں نے اُن کی اِس کوشش کو سراہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وزیرِاعظم شہباز شریف کو اُن کی تنظیم کا خط مل چکا ہے اور ان سے آئندہ ہفتے ملاقات متوقع ہے۔ اِسی طرح دیگر سیاسی قائدین سے بھی جلد ملاقات کا امکان ہے۔

امتیاز عالم پُراُمید ہیں کہ تمام سیاسی جماعتیں بات چیت کے لیے تیار ہوں گی کیوں کہ ماضی میں پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے اختلافات کے باعث جمہوریت پٹری سے اترتی رہی ہے اور مارشل لاء لگتے رہے ہیں۔

’اپنی نوعیت کا پہلا قدم‘

پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب بتاتے ہیں کہ ماضی میں ایسا کئی مرتبہ ہو چکا ہے کہ سیاسی جماعتیں جب اپنے مسائل خود حل نہ کرپا رہی ہو ں تو کوئی دوسرا اِنہیں ایک ساتھ بٹھاتا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ1977ءمیں ذوالفقار علی بھٹو اور پی این اے کے درمیان بہت زیادہ تناؤ تھا۔ اِن کے درمیان مذاکرات شروع کرانے میں سعودی عرب کے سفیر ریاض الحطیب نے اہم کردار ادا کیا تھا۔

SEE ALSO: ’موجودہ حالات کسی کے کنٹرول میں نہیں ہیں‘


احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ اِسی طرح نوابزاہ نصراللہ نے ایک سے زائد مرتبہ مختلف سیاسی جماعتوں میں ثالثی کا کردار ادا کیا اور اُن کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرکے بات چیت کرائی ہے۔ تاہم ان کے نزدیک سول سوسائٹی کی جانب سے یہ اپنی نوعیت کا پہلا قدم ہے۔

میڈی ایٹرز کے کوارڈینیٹر امتیاز عالم بتاتے ہیں کہ جوں ہی سیاسی قائدین سے ملاقاتوں کا پہلا مرحلہ مکمل ہو گا آل پارٹیز کانفرنس کے لیے ایک مناسب تاریخ کا اعلان کر دیا جائے گا۔ کوشش ہے کہ اے پی سی کا انعقاد جلد از جلد کیا جائے۔