لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے اسلام آباد میں سول سوسائٹی کا مظاہرہ

پاکستان میں سول سوسائٹی کی تنظیموں پر مشتمل عوامی جموری اتحاد نے ملک میں مبینہ جبری گمشدگیوں کے بڑھتے ہوئے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لاپتا افراد کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ مطالبہ جمہوری اتحاد نے جمعرات کو اسلام آباد پریس کلب کے باہر ایک احتجاجی مظاہرے کے دوران کیا جس میں سول سوسائٹی کے درجنوں کارکنوں نے شرکت کی۔

یہ مظاہرہ ایک ایسے وقت ہوا ہے جب ایک روز قبل ہی غیرملکی نشریاتی اداروں سے وابستہ پاکستانی صحافی طحہٰ صدیقی کو بعض افراد نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں اغوا کرنے کی ناکام کوشش کی۔

اس موقع پر جاری ہونے والے ایک بیان میں جمہوری اتحاد نے کہا کہ اگر لاپتا ہونے والے افراد کے خلاف کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہونے کے ثبوت ہے تو ان کے خلاف عدالتی کارروائی کی جانی چاہیے، بصورت دیگر وہ لوگ یا ادارے جو ان کی جبری گم شدگی میں مبینہ طورپر ملوث ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔

عوامی جمہوری اتحاد کا کہنا ہے کہ لاپتا ہونے والے بعض افراد وہ تھے جو سماجی میڈیا پر حکومتی اداروں کی پالیسوں کے خلاف آواز بلند کرتے رہے ہیں۔

مظاہرے میں شریک معروف سماجی کارکن فرازنہ باری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ”اگر کوئی قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے توا س کے خلاف ایف آئی آر (پولیس رپورٹ) درج کی جا سکتی ہے آپ اس کو یہ حق دیں کی وہ اپنی صفائی دے سکے کہ اور پھر اگر کوئی جرم عدالت میں ثابت ہو تو اسے سزا دی جا سکتی ہے۔ "

حزب ٘مخالف کی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا ہے کہ " پاکستان کے قوانین اتنے سخت بنے ہیں کسی بھی قانون کے تحت ہر قسم کے ملزموں کے خلاف کارروائی کیا جا سکتی ہے لیکن اگر پھر بھی لوگ لاپتا ہو رہے تو پھرشاید ان کے خلاف ثبوت نہیں کہ ان کے خلاف مقدمہ درج کیا جا سکے اور شاید انکے لاپتا ہونے کی کوئی اور وجہ ہے۔"

پاکستان میں مبینہ جبری گم شدگی کے واقعات کے خلاف انسانی حقوق کی تنظیمیں اور قانون ساز آواز بلند کرتے رہتے ہیں اور لاپتا ہونے والے بعض افراد کے اہل خانہ اپنے عزیزوں کی گمشدگی کا الزام خفیہ اداروں پر عائد کرتے ہیں۔

پاکستانی حکومت اور سیکورٹی کے ادارے ایسے الزامات کو مسترد کرتے رہے ہیں کہ ریاستی ادارے جبری گمشدگیوں کے واقعات میں ملوث ہیں۔

جمہوری اتحاد کا کہنا ہےکہ لاپتا افراد سے متعلق سابق جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں قائم کمیشن بھی لاپتا افراد کے معاملے کو سلجھانے میں ناکام رہا ہے۔

دوسری طرف جسٹس جاوید اقبال گزشتہ سال اکتوبر میں سینیٹ کی ایک کمیٹی کو بتا چکے ہیں کہ لاپتا افراد کی ایک بڑی تعداد کے معاملات نہ صرف نمٹا دیا گیا ہے بلکہ اُن کے بقول بلوچستان سے رپورٹ ہونے والے ایسے واقعات میں قابلِ ذکر کمی بھی دیکھی گئی ہے۔

واضح رہے کہ حکومت نے 2011ء میں جاوید اقبال کی سربراہی میں لاپتا افراد کے معاملات کی تحقیقات کے لیے کمیشن تشکیل دیا تھا۔

حکومت میں شامل عہدیدار کہتے رہے ہیں کہ اس معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے اور ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے کہ لاپتا افراد کو منظرِ عام پر لایا جاسکے۔