توشہ خانہ کیس: 'بادیٔ النظر میں ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں غلطیاں ہیں'

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ بادیٔ النظر میں توشہ خانہ کیس سے متعلق ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں غلطیاں ہیں لیکن اس کے باوجود آج ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں مداخلت نہیں کریں گے۔

وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق توشہ خانہ کیس میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی درخواست پر چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رُکنی بینچ نے بدھ کو سماعت کی۔

عمران خان نے توشہ خانہ کیس کے قابلِ سماعت ہونے کا معاملہ ٹرائل کورٹ بھجوانے کا اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

ٹرائل کورٹ کے جج ہمایوں دلاور نے سابق وزیرِ اعظم کو اس کیس میں تین برس قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی جس کے بعد وہ اٹک جیل میں قید ہیں۔

عمران خان کے خلاف توشہ خانہ سے تحائف وصول کرنے اور ان کی مالیت کم ظاہر کر کے اس کا بھی کچھ حصہ ادا کرنے کے بعد یہ قیمتی تحائف اپنے پاس رکھنے کا کیس تھا۔

توشہ خانہ ریفرنس میں کہا گیا تھا کہ عمران خان نے اپنے اثاثوں میں توشہ خانہ سے لیے گئے تحائف اور ان تحائف کی فروخت سے حاصل کی گئی رقم کی تفصیل نہیں بتائی۔

بدھ کو سماعت کے دوران کیا ہوا؟

دورانِ سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ وہ ہائی کورٹ سے درخواست کریں گے کہ جمعرات کو یہ کیس سنے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ججز کے بجائے ججز کے فیصلوں پر بات ہونی چاہیے جب فیصلہ آجاتا ہے تو وہ عوام کی ملکیت ہوتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ٹرائل کورٹ یا اپیلٹ کورٹ نے کسی معاملے کو نہیں دیکھا تو ہم اس کو دیکھ سکتے ہیں۔ اگر متعلقہ کورٹ نے کسی معاملے پر فیصلہ کر لیا ہے تو اپیل ہم دیکھ سکتے ہیں۔

عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے جج سے لے کر ٹرائل کورٹ تک سب کی برابر عزت و تکریم ہے۔ ہم نے آپ کے لیے خون دیا ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے آئین کے لیے ہمارا ساتھ دیا، ہم گواہ ہیں۔

اسی دوران بینچ کےرکن جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ نے آئین کے لیے جدوجہد کی، کسی جج کے لیے نہیں۔

چیف جسٹس نے بعدازاں سماعت جمعرات تک کے لیے ملتوی کر دی۔