امریکی سمندروں میں پائے جانے والی وہیل، ڈولفن اور سیل سمیت میملز کو ماحولیاتی تبدیلی کے باعث سمندری درجہ حرارت بڑھنے ، سطح سمندر بلند ہونے اور برف کے پگھلنے سے شدید خطرات لاحق ہیں۔
امریکہ کے ادارے "نیشنل اوشینک اینڈ ایٹماسفیرک ایڈمنیسٹریشن" کی ایک سو سمندری میملز پر کی گئی اپنی طرز کی پہلی تحقیق ے ظاہر ہوا ہے کہ اس قسم کی سمندری حیات کے رہنے کی جگہوں اور خوراک میں کمی کی وجہ سے ایسےستر فیصدجانوروں کو خطرات کا سامنا ہے۔
آب و ہوا کے تغیر کے اثرات سے تحلیل شدہ آکسیجن میں کمی واقع ہوئی ہے اور سمندری کیمسٹری میں بھی تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔
سائنس دانوں کوتحقیق سے پتا چلا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے سب سے بڑا خطرہ "ہمپ بیک" اور "نارتھ اٹلانٹک رائٹ وہیلز " کو درپیش ہے۔ اس کے علاوہ دانتوں والی دوسری وہیلز اور ڈالفن مچھلیوں کو بھی بہت خطرہ ہے۔
سمندری میملز کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ ماہ "پلاس ون" میگیزین میں شائع ہونے والی یہ تحقیق اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکہ کو وہیل اور ڈولفن مچھلیوں کی بہتری کو یقینی بنانے کے لیے اپنے طریقہ کار کو موسمیاتی تبدیلی کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔
اس اسٹڈی کے مرکزی مصنف اور ماہر حیاتیات میتھیو لیٹرچ کا کہنا ہے کہ یہ یہ ایک بری خبر ہے لیکن امریکہ کی نگرانی میں رہنے والے سمندری میملز پر اس پہلی تحقیق کے نتائج امریکہ کے وفاقی سمندری منتظمین کو خطرات کا سامنا کرنے والے جانوروں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے معلومات فراہم کر سکتے ہیں ۔
لیٹرچ نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پہلے ہی عیاں ہیں اور سمندری میملز میں سے کچھ ان اثرات کے پیش نظر زیادہ غیر محفوظ ہیں۔
ان کے بقول تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ میملز کی اچھی خاصی تعداد بہت زیادہ غیر محفوظ ہے۔
محققین نے مغربی شمالی بحر اوقیانوس، خلیج میکسیکو اور بحیرہ کیریبین میں رہنے والے میملز کا مطالعہ کیا۔ اس سمندری علاقے میں پائے جانے والے جانور امریکی وفاقی حکومت کے ادارے "نیشنل میرین فشریز سروس " کے زیر اہتمام ہیں جو سمندری وسائل کی حفاظت کا کام انجام دیتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سائنسدانوں نے اس بات کا جائزہ لیا کہ سمندری جانوروں کو کس حد تک موسمیاتی تبدیلی کا سامنا ہے اور وہ کس حد تک اس تبدیلی کے حالات میں اپنے آپ کو ڈھالنے کی حساسیت اور اہلیت رکھتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوا کہ ان میں سے 72 فیصد جانور زیادہ یا بہت زیادہ آب ہوا کی تبدیلی سے غیر محفوظ ہیں جبکہ ان میں نصف کے قریب جانوربہت زیادہ غیر محفوظ کیٹگری میں شامل ہیں۔
گرم سمندر بنیادی طور پر دو طریقو ں سے نقصان پہنچاتا ہے، ایک تو جانوروں کی خوراک ڈھونڈنے کی صلاحیت کو تبدیل کر کے اور دوسرا ان کے لیے مناسب رہنے کی جگہوں کو کم کر کے۔
تاہم، سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ سمندر کے درجہ حرارت اور کیمسٹری میں تبدیلیاں آواز کے سفر کو بھی تبدیل کر سکتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ڈولفن جیسے جانوروں کی آپس میں بات کرنے اور شکار کرنے میں استعمال ہونے والی آواز کی طرح" ایکو لوکیشن" بھی متاثر ہو سکتی ہے۔
تحقیق کہتی ہے کہ اس قسم کے سمندری جانوروں کو بہتر طور پر رکھنے کےلیے ماحولیاتی تبدیلی کو بغور دیکھنا چاہیے۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکی ریاست میسا چیوسٹس میں قائم "وہیل اینڈ ڈولفن کنزرویشن" سے منسلک ماہر حیاتیات ریجینا ایسموٹس سلویا کہتی ہیں کہ یہ مطالعہ اس لیے اہم ہے کیونکہ یہ پہلا ایسا مطالعہ ہے جو امریکی سمندری میملز کا بغور جائزہ لیتا ہے اور موسمیاتی تبدیلی کے پیش نظر ان کے مقابلہ کرنے کی صلاحیت کی پیش گوئی کی ایک کوشش ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر اس مطالعے سے ملنی والی معلومات کو وہیل مچھلیوں کی حفاظت کرنے والے قوانین پر عمل درآمد میں استعمال کیا جائے تو وہیلز کو اس سے فائدہ ہو سکتا ہے۔
سلویا کہتی ہیں کہ امریکہ ان ملکوں میں سے ایک ہے جن کے پاس سمندری میملز کے متعلق بیش بہا ڈیٹا ہے۔ اس ڈیٹا کو سمندری میملز کی حفاظت کے لیے بنائے گئے دنیا کے طاقت ور ترین قوانین پر عمل کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔
تاہم، ان کے بقول، اگر انتظامی اقدامات کے نفاذ کے لیے سیاسی آمادگی نہ ہوتو یہ ڈیٹا بے معنی ہوجاتا ہے۔
حالیہ سالوں میں دنیا بھر میں وہیل مچھلیوں پر ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کے بارے میں سائنسی تحقیق کا رجحان بڑھا ہے۔
نیو انگلینڈ کے مچھلی گھر میں قائم "اینڈر سن کیبٹ سنٹر فار اوشن لائف" پر کام کرنے والی سائنسدان لارا گینلی کہتی ہیں کہ ان میں زیادہ تر تحقیقی مطالعہ یا تو ایک ہی قسم کے جانوروں پر مرکوز ہوتا ہے یا وہ ایک مخصوص علاقے تک محدود ہوتا ہے۔
لیکن، وہ کہتی ہیں کہ جس طریقے سے موسمیاتی تبدیلی بڑے جانوروں کو متاثر کرتی ہے وہ عالمگیر ہے، لہذا اس سلسلے میں ایک وسیع تر انداز مد د گار ہوگا۔
Your browser doesn’t support HTML5
بہت سے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مو سم گرما میں نیو انگلینڈ کے علاقے کے پاس سے غائب ہونے والی رائٹ وہیل کو گرم ہوتے پانیوں کی وجہ سے خوراک ک کی دستیابی میں تبدیلی نے زیادہ غیر محفوظ بنادیا ہے۔
لیکن، گینلی کہتی ہیں کہ یہ بات ظاہر ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے کم زیر مطالعہ آنے والےجانوروں کی اقسام بھی متاثر ہوئی ہیں۔
گینلی، جو کہ مذکورہ تحقیق کا حصہ نہیں تھیں، کہتی ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی محض شمالی بحر اوقیانوس کی رائٹ وہیلز یا "باٹل نوز ڈولفن" پر ہی اثرانداز نہیں ہو رہی بلکہ یہ امریکہ کے زیادہ تر سمندری جانوروں پر اثر انداز ہورہی ہے ۔ اس کے اثرات کیریبیئن سی یا گلف آف مین کے جانوروں تک ہی محدود نہیں۔
تحقیق کے مطابق موسمیاتی تبدیلی سمندری میملز کے رویوں اور ان کی علاقے میں تقسیم پر بھی اثر ڈال سکتی ہے۔
رائٹ وہیلز کی طرح کی وہیلز، جو ہر سال امریکی ریاستوں جارجیا اور فلوریڈا سے شمال کی طرف آتی ہیں، ہر سال خوراک اور افزائش کے لیے سینکڑوں میل کا سفر کرتی ہیں۔
بہت سی وہیلز بین الاقوامی پانیوں کے پار نقل مکانی کرتی ہیں، جس کی وجہ سے دنیا کے ملکوں میں نئے قسم کے تعاون کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ تحقیق کے مطابق ایسا خاص طور پر امریکہ اور کینیڈا میں بڑی تعداد میں پائی جانے والے گرے سیلز میملز کے معاملے میں ہو سکتاہے۔
امریکہ کی وفاقی حکومت نے تعداد میں کم ہوتی ہوئی وہیلز کی حفاظت کے لیے حالیہ برسوں میں کئی طریقے آزمائے ہیں جن میں تجارت کے لیے مچھلیوں کے پکڑنے پر پابندیاں اور ان علاقوں میں گزرنے والے جہازوں کی رفتار پر پابندی بھی شامل ہیں۔
وہیلز بعض اوقات مچھلیاں پکڑ نے والے جالوں میں پھنس جاتی ہیں اور بڑے بحری جہازوں سے بھی ٹکرا جاتی ہیں۔ سائنسدان کہتے ہیں کہ سمندری پانیوں کے گرم ہونے سے دونوں خطرات شدید ہوگئے ہیں کیونکہ سمندری تبدیلیاں وہیلز کو اپنے محفوظ علاقوں سے باہر نکل جانے پر مجبورکرتی ہیں۔
ماحولیات پرکام کرنے والے گروپ"اوشنا " کے مہم چلانے کے مینیجر گب بروگن کہتے ہیں کہ وہیل مچھلیوں کو موسمیاتی تبدیلی کے دور میں تحفظ فراہم کرنے کے لیے سمندر کے منتظمین کو ایک ایسے مستقبل کی منصوبہ بندی کرنا ہوگی جبکہ ان کے رہنے کی جگہیں گرم پانیوں کے باعث ان کے لیے کم موزوں ہوجائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ یہ تحقیق منتظمین کو رہنمائی فراہم کرتی ہے کہ وہ کس طرح سمندری جانورں کی انتہائی غیر محفوظ اقسام کو ترجیح اور توجہ دے سکتے ہیں۔ بروگان نے کہا اگر ہمیں سمندری میملز سمیت حیاتیاتی تنوع کو قائم رکھنا ہے، سمندری انتظام پر مامور مینیجرز کو سمندری جانوروں کو زندرہ رکھنے کے سلسلے میں اس وقت جاری اور مستقبل میں ہونے والی تبدیلیوں کو واضح طور پر مد نظر رکھنا ہوگا۔
(اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے اے پی سے لی گئی ہیں)