ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق امریکہ کے ایلچی جان کیری نے پیر کے روز اپنے چینی ہم منصبوں کے ساتھ بیجنگ میں بات چیت کا آغاز کیا۔ ان کا دورہ، امریکہ کی جانب سے، چین کے ساتھ تائیوان، انسانی حقوق اورخطے کے علاقوں پر چین کےدعوے کے باعث کشیدہ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششوں کا حصہ ہے۔
چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی سنہوا نے بتایا ہے کہ کیری نے شیا شینہووا کے ساتھ پہلی مرتبہ آمنے سامنے بات چیت کی ہے۔ دنیا کے دو ایسے ملکوں کے نمائندوں کے درمیان، جو فضائی آلودگی کے بڑے ذمے دار سمجھے جاتے ہیں، اس موضوع پر تقریباً ایک سال کے وقفے کے بعد پہلی بار گفتگو ہورہی ہے۔
چین دنیا میں کوئلہ پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ وہ مسلسل نئے پلانٹ تعمیر کر رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ شمسی اور ہوا کی توانائی جیسے قابلِ تجدید توانائی کے ذرائع بھی استعمال کر رہا ہے۔
اس کے باوجود کانگریس میں ریپبلکنزنے کیری کے اس دورے پر سوال اٹھائے اور بعض اوقات ماحولیاتی تبدیلی کے سائنسی طور پر بیان کیے گئے حقائق کو بھی چیلنج کیا۔
چین نے وعدہ کیا ہے کہ وہ 2030 تک کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج مطلوبہ سطح پر لے آئے گا اور 2060 تک ملک کو کاربن سے بالکل پاک کردے گا۔ جبکہ امریکہ اور یورپی یونین نے چین پر زور دیا ہے کہ وہ مزید کمی کے اہداف مقرر کرے۔
SEE ALSO: کیا پتہ ہم جہنم میں رہ رہے ہوں؟
توقع ہے کہ کیری چین کو کوئلے پر انحصار کم کرنے اور میتھین اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اہداف مقرر کرنےکے لیے کہیں گے جو کرۂ ارض کا درجہ حرارت بڑھانے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
امریکہ اور یورپ کے ساتھ چین میں بھی اس سال درجۂ حرارت میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس سے فصلوں کو خطرات لاحق ہوئے اور شدید گرمی سے بچنے کے لیے سرد جنگ کے زمانے کے بم شیلٹر لوگوں کے بچاؤ کے لیے کھولنے پڑے۔
امریکی قانون سازوں نے ماحولیات کو نقصان پہنچانے والے فوسل ایندھن کے اخراج کو کم کرنے سے انکار کے باعث چین پر تنقید کی ہے اور چین کے اس اصرار پر بھی کہ مغرب کے ترقی یافتہ ممالک کے بر عکس چین کی معیشت اب بھی ترقی پذیر ہے اور اسی لیے ماحولیات سے متعلق اس کے معیارات بھی مختلف ہونے چاہئیں۔
اس کے جواب میں کیری نے کہا ہے کہ چین کے دعووں اور اس کی معیشت کے حجم میں تضاد ہے۔ چین کی معیشت دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے اور اسے یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ اخراج کم کرنے کی بڑھتی ہوئی عالمی کوششوں میں رکاوٹ پیدا کرے۔
کیری بائیڈن انتظامیہ کے تیسرے عہدےدار ہیں جنہوں نے حالیہ ہفتوں میں چین کے اپنے ہم منصبوں کے ساتھ بات چیت کے لیے بیجنگ کا دورہ کیا ہے۔ اس سے پہلے امریکی وزیرِ خارجہ انٹنی بلنکن اور وزیرِ خزانہ جینٹ ییلن چین کا دورہ کر چکے ہیں۔
(اس خبر میں کچھ مواد اے پی سے لیا گیا ہے)