|
کوکا کولا اور اس کی حریف کمپنی، پیپسی کولا نے اپنے سوفٹ ڈرنکس کی مانگ کومصر اور پاکستان سمیت، مسلم اکثریتی ملکوں میں بڑھانے کے لیے کئی دہائیوں میں لاکھوں ڈالر خرچ کیے ہیں۔
اب دونوں کمپنیوں کو غزہ میں جنگ کے دوران، ان ملکوں میں صارفین کی جانب سے اس بنا پر بائیکاٹ کی وجہ سےچیلنجوں کا سامنا ہےکہ دنیا بھر میں موجود سوفٹ ڈرنکس کے یہ دونوں برانڈ امریکہ اور اسرائیل کی علامت ہیں۔
SEE ALSO: میکڈونلڈز: گاہکوں کو لبھانے کے لیے نت نئی ڈیلز لیکن پھر منافع میں کمی کیوں؟مصر میں اس سال کوک کی فروخت ختم ہو گئی جب کہ اس کا مقامی مشروب "وی سیون" مشرق وسطیٰ اور وسیع تر خطے میں گزشتہ سال کی نسبت اس سال تین گنا زیادہ ایکسپورٹ ہوا۔ بنگلہ دیش میں لوگوں کے ہنگاموں کی وجہ سے کوکا کولا کو بائیکاٹ کے خلاف اپنی ایک اشتہاری مہم کو منسوخ کرنا پڑا۔
اور اکتوبر میں غزہ جنگ کے شروع ہونے کے بعد پورے مشرق وسطیٰ میں پیپسی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مانگ ختم ہو گئی۔
پاکستان میں ایک کمپنی کی ایگزیکیٹیو سنبل حسان نے کراچی میں اپریل میں اپنی شادی کے مینیو میں کوک اور پیپسی کو شامل نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ نہیں چاہتیں کہ ان کا پیسہ اسرائیل کے پکے اتحادی، امریکہ کے ٹیکس فنڈز تک پہنچے۔
سنبل حسان نے کہا کہ بائیکاٹ کے ذریعے کوئی بھی ان فنڈز میں اپنا حصہ نہ ڈال کر ایک کردار ادا کر سکتا ہے۔ انکی شادی پر مہمانوں کو پاکستانی برانڈ "کولا نیکسٹ" پیش کیاگیا۔
مارکیٹ ریسرچر نیلسن آئی کیو کہتے ہیں کہ اگرچہ پیپسی کولا اور کوکا کولا کا مشرق وسطیٰ کے متعدد ملکوں میں بزنس بدستور بڑھ رہا ہے تاہم پورے مشرق وسطیٰ میں مغربی مشروبات کے برانڈز کی فروخت میں اس سال کے پہلے نصف حصے میں سات فیصد کمی ہوئی۔
پاکستان میں ڈیلیوری کی ایک ممتاز ایپ کریو مارٹ کے فاؤنڈرقاسم شیراف نے اس ماہ رائٹرز کو بتایا کہ مقامی کولا کے حریفوں، مثلاً کولا نیکسٹ اور پاکولا کی مقبولیت میں سوفٹ ڈرنک کی کیٹیگری میں لگ بھگ 12 فیصد اضافہ ہو ا بائیکاٹ سے پہلے یہ شرح 2.5 فیصد کے قریب تھی۔
پیپسی کولا کے سی ای او، ریمن لگوارتا نے11 جولائی کو رائٹرز کو ایک انٹر ویو میں کہا کہ کچھ صارفین اپنی خریداری میں سیاسی نظریات کی بنیاد پر مختلف فیصلے کر رہے ہیں ۔ اور یہ کہ اس طرح کے بائیکاٹ لبنان، پاکستان اور مصر جیسے ملکوں میں اثر انداز ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم وقت کے ساتھ ساتھ اس پر قابو پا لیں گے ۔
آمدنی کے جاری کردہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہےکہ سال 2023 میں افریقہ، مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں پیپسی کولا کے کل محصولات 6 ارب ڈالر تھے ۔ کوکا کولا کی فائلنگز سے ظاہر ہوتا ہےکہ اسی سال مشرق وسطیٰ اور افریقی خطے میں ا س کی کمپنی کے محصولات 8 ارب ڈالر تھے۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے نتیجے میں شروع ہونے والی غزہ جنگ کے بعد کی ششماہی میں پیپسی کولا بیورجیز کا حجم افریقہ، مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے خطے میں بمشکل بڑھا، جب کہ سال 2022/2023 میں انہی چھ ماہ کے دوران اس میں 8 فیصد اور 15 فیصد اضافہ ہوا تھا۔
کوکاکولا کمپنی نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل یا کسی بھی ملک میں فوجی کارروائیوں کے لیے فنڈنگ نہیں کرتی۔ رائٹرز کی ایک درخواست کے جواب میں پیپسی کولا نےکہاکہ نہ تو کمپنی اورنہ ہی ہمارےبرانڈز تنازعےکی شکارکسی حکومت یا فوج سے منسلک ہیں۔
فلسطینی امریکی بزنس مین، زاہی خوری نے رملہ میں کوکا کولا نیشنل بیوریج کمپنی قائم کی تھی جو مغربی کنارے میں کوک فروخت کرتی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ کمپنی نے 2016 میں غزہ میں 25 ملین ڈالر کا جو پلانٹ شروع کیا تھا وہ جنگ میں تباہ ہو چکا ہے۔ ملازمین کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ۔
خوری نے کہاکہ بائیکاٹ ایک ذاتی فیصلہ ہے لیکن اس سے فلسطینیوں کو کو ئی فائدہ نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ خود مغربی کنارے میں بھی اس کی فروخت پر محدود اثر پڑا۔
خوری نے جو اسرائیل کے شانہ بشانہ ایک فلسطینی ریاست کی تشکیل کے حامی ہیں، کہا کہ صرف قبضے کے خاتمے سےہی صورتحال تبدیل ہو سکے گی۔
اسرائیل کی حکومت نے تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
SEE ALSO: کیا مغربی کنارے میں اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم کامیاب ہوسکتی ہے؟کولا نیکسٹ نے، جو کوک اور پیپسی سے سستا ہے،مارچ میں اپنے اشتہار کے سلوگن کو مقامی بنیاد پر زور دیتے ہوئے اس طرح تبدیل کر دیا، "کیوں کہ کولا نیکسٹ پاکستانی ہے"۔
برانڈ کی پیرنٹ کمپنی ، میزبان بیوریجز کے سی ای او میاں ذوالفقار احمد نے ایک انٹر ویو میں کہا ، کولا نیکسٹ فیکٹریاں مانگ میں اضافےکو پورا نہیں کر سکتیں۔ انہوں نے یہ بتانے سے انکار کر دیا کہ مانگ میں کتنا اضافہ ہوا اور فیکٹریاں کتنی مانگ پوری کر سکتی ہیں۔
کراچی کے ریسٹورینٹس، نجی اسکولوں کی ایسو سی ایشن اور یونیورسٹی کےاسٹوڈنٹس نے پاکستان کے ایک مقبول میوزک شو، کوک اسٹوڈیو کی اسپا نسر شپ سے پیدا ہونے والی خیر سگالی کو ختم کرتے ہوئے کوکا کولا کے خلاف اقدامات میں حصہ لیا۔
مصری کولا ، وی سیون کے فاؤنڈر محمد نور نے ایک انٹر ویو میں کہا کہ اس سال وی سیون کی برامدات 2023 کے مقابلے میں تین گنا بڑھ گئی ہیں ۔ نو ر، جو کوکا کولا کے ایک سابق ایکزیکٹیو ہیں اور جنہوں نے 28 سال بعد 2020 میں کمپنی چھوڑ دی تھی، کہا ہے کہ اس وقت وی سیون 21 ملکوں میں فروخت ہوئی ۔
نور نے کہا کہ ، مصر میں جہاں وی سیون صرف جولائی 2023 سے ہی دستیاب ہوئی ہے ، اس کی فروخت میں چالیس فیصد اضافہ ہوا۔
قطر میں جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے ایک ایسو سی ایٹ پروفیسر نے انتباہ کیا کہ بائیکاٹ کی وجہ سے صارف کی مشروب سے وابستگی کو دیر پا نقصان پہنچے گا۔
انہوں نے کہا کہ ، اگر صارف کی عادت ختم ہو گئی تو کافی عرصے بعد اسے دوبارہ شروع کروانا زیادہ مشکل ہو جائےگا۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کمپنیوں کو اس سے اندازاً کتنا مالی نقصان ہو سکتا ہے۔ .
دوسرے امریکی برانڈز جنہیں مغربی کلچر کی علامت سمجھا جاتا ہے ، مثلاً میک ڈونلڈ ، اور اسٹار بکس کو بھی اسرائیل مخالف بائیکاٹس کا سامنا ہے۔
نیلسن آئی کیو کے مطابق 2024 کے پہلے نصف حصے میں مشرق وسطیٰ میں ان گلوبل برانڈز کے مارکیٹ شیئر ز 4 فیصد تک گر گئے ۔ لیکن مظاہرے زیادہ تر بڑے پیمانے پر دستیاب سوڈا مشروبات کے خلاف زیادہ دکھائی دیے۔
پاکستان، مصر اور بنگلہ دیش میں بائیکاٹ کے ساتھ ساتھ ، مہنگائی ، اقتصادی مشکلات کے باعث صارفین کی قوت خرید جنگ سے پہلے ہی کم ہو گئی تھی جس کے باعث سستے مقامی برانڈ ز مزید پر کشش ہو گئے۔
گلوبل ڈیٹا کے مطابق ، گزشتہ سال پاکستان میں صارف سیکٹر میں کوک کا مارکیٹ شئیر جو 2022 میں 6.3 فیصد تھا گر کر 5.7 فیصد ہو گیا ۔ جب کہ پیپسی کا شئیر 10.8 فیصد سے کم ہو کر 10.4 فیصد ہو گیا۔
کوکا کولا اور اس کی بوتلیں فروخت کرنے والے ، اور پیپسی کولا ابھی بھی ان ملکوں کو اپنی ترقی کےلیے اہم سمجھتے ہیں خاص طور سے اب جب مغربی مارکیٹس سست روی کا شکار ہیں۔
کوک نے ایک پریس ریلیز میں کہا ہے کہ ، بائیکاٹ کے باجود کوک نے اپریل میں پاکستان میں ٹکنالوجی کو اپ گریڈ کرنے میں مزید 22 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔
SEE ALSO: میرپور: اسرائیل مخالف مظاہرے کے دوران غیر ملکی ریستوران جلانے کا مقدمہ درجپاکستان میں کوکا کولا بوٹلر نے مئی میں سرمایہ کاروں سے کہا تھا کہ وہ اس ملک میں اب بھی موقع کے بارےمیں مثبت رائے رکھتی ہے اور یہ کہ اس نے مارکیٹ میں ایک پائدار وابستگی کے ساتھ سرمایہ کاری کی ہے۔
یہ کمپنیاں ابھی تک فلاحی اداروں، میوزیشنز اور کرکٹ ٹیمز کواسپانسر کر کے کوک اور پیپسی برانڈز کو مقامی کمیونٹیز میں فروغ دے رہی ہیں۔
پیپسی کولا کے ایک ترجمان نے تصدیق کی کہ کمپنی نے حالیہ ہفتوں میں پاکستانی مارکیٹ میں روائتی طور پر لیمن۔لائم فلیور کے"ٹیم سوڈا" نامی برانڈ کو از سر نو متعارف کرایا ہے۔ یہ پروڈکٹ اب کولا فلیور میں دستیاب ہے جس کے لیبل پر واضح طور پر، میڈ ان پاکستان ‘ لکھا ہے ۔
جارج ٹاؤن کے Musgrave نے کہا ہے کہ، ایسے اقدامات کوک اور پیپسی کو ملکوں میں لمبے عرصے تک قائم رہنے کےلیے انتہائی اہمیت رکھتے ہیں خواہ انہیں اس وقت نقصانات کا سامنا ہے ۔
"آپ خود کو کسی کمیونٹی کا اتحادی بننے یا اس میں موجود رہنے یا اس کا حصہ بننے کےلیے جو کچھ بھی کر سکتے ہیں اس سے فائدہ ہوتا ہے۔"
اس رپورٹ کا مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔