خیبر پختونخوا پولیس پرحملوں میں اضافہ؛ کیا پولیس کو معیاری بلٹ پروف جیکٹ بھی میسرنہیں؟

فائل فوٹو۔

پاکستان میں سیاسی کشیدگی میں اضافے کے ساتھ امن و امان کی صورتِ حال بھی دن بہ دن بگڑ رہی ہے۔ خاص طور پر خیبرپختونخوا سب سے زیادہ متاثر ہ ہونے والا صوبہ ہے۔

افغانستان کی سرحد سے ملحق خیبر پختونخوا میں حکام نے عسکریت پسندوں کی بڑھتی کارروائیوں سے نمٹنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چوکس رہنے کی ہدایت کی ہے۔ لیکن صوبے میں پولیس پر بڑھتے حملوں سے عام لوگوں کے ساتھ پولیس اہلکاروں میں بھی بے چینی پائی جاتی ہے۔

اطلاعات کے مطابق پولیس کے پاس عسکریت پسندوں سے نمٹنے کے لیے درکار اسلحہ اور ساز و سامان کی کمی ہے۔

سرکاری اعداد وشمار کے مطابق رواں سال کے پہلے تین ماہ کے دوران خیبر پختونخوا پولیس پر 25 حملے ہوئے جن میں 125 افراد ہلاک اور 200 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔

ان حملوں میں سر فہرست پشاور پولیس لائنز کی جامع مسجد پر 30 جنوری 2023 کو ہونے والا خودکش دھماکہ تھا جس میں 88 پولیس اہل کاروں سمیت 100 سے زائد افراد ہلاک اور 190 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔

رواں ہفتے خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلعے کوہاٹ میں عسکریت پسندوں نے پولیس اہل کاروں پر حملہ کیا جس میں دو پولیس اہلکار ہلاک ہوگئےتھے۔ پولیس کی جانب سے درج واقعے کی رپورٹ میں لکھا گیا کہ ہلاک ہونے والے ایک اہلکار کے ہیلمٹ اور بلٹ پروف جیکٹ سے گولی آر پار ہو گئی۔

SEE ALSO: پاکستانی فورسز کا جنوبی وزیرستان میں اہم کمانڈر سمیت آٹھ عسکریت پسندوں کی ہلاکت کا دعویٰ

پولیس اہل کار زیرِ استعمال اسلحے سے غیر مطمئن

واقعے کے بعد بعض پولیس اہل کاروں میں تشویش پائی جاتی ہے کہ ایک طرف وہ عسکریت پسندوں کے نشانے پر ہیں تو دوسری جانب ان کے حفاظتی سامان کے مبینہ طور پر غیر معیاری ہونے کی وجہ سے ان کے لیے خطرات بڑھ گئے ہیں۔

پشاور میں تعینات ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ عسکریت پسندوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ان کے زیرِ استعمال اسلحہ، وردی، جیکٹ اور ہیلمٹ غیر معیاری نہ ہوں۔

پولیس افسر نے کہا کہ غیر معیاری اسلحے کی خریداری اور اس کے استعمال کے معاملات تو گزشتہ کئی برسوں سے زیرِ بحث رہے ہیں لیکن کوہاٹ کے واقعے نے انہیں اور ان کے ساتھیوں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

پولیس افسر نے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس کے پاس استعداد تو ہے لیکن ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج مناسب اسلحہ اور حفاطتی سامان کی عدم دست یابی ہے۔

کوہاٹ واقعے کے بعد خیبرپختونخوا کے انسپکٹر جنرل پولیس اختر حیات خان گنڈاپور نے تحقیقات کا حکم دیا تھا۔ بعد ازاں پولیس حکام نے جمعرات کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کرائم سین سے ملنے والے ہیلمٹ اور جیکٹ کا فرانزک معائنہ کیا گیا ہے اور شواہد سے واضح ہوتا ہے کہ حفاظتی سامان کے بوسیدہ یا غیر معیاری ہونے کی اطلاعات غلط ہیں۔

SEE ALSO: پشاور میں اقلیتی برادریاں ٹارگٹ کلنگ کا ہدف کیوں بن رہی ہیں؟

انہوں نے کہا کہ ہلاک ہونے والے پولیس اہلکار نے جو جیکٹ پہنی تھی، گولی اس کے پار نہیں ہوئی اور یہ بھی غلط ہے کہ ہماری بلٹ پروف جیکٹس اور ہلیمٹ اپنی افادیت کھو بیٹھے ہیں۔

تاہم ڈی آئی جی پولیس محمد سلیمان نے اعتراف کیا کہ پولیس کے زیرِ استعمال اسلحہ 10 سال پہلے خریدا گیا تھا اور بلٹ پروف جیکٹس کا وزن بھی زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ 10 سال قبل خریدی گئی اشیا کی کوئی گارنٹی نہیں تھی مگر اب خریدی گئیں بلٹ پروف جیکٹس کی تین سے پانچ سال تک کی گارنٹی ہے۔

ڈی آئی جی پولیس کا کہنا تھا کہ کوہاٹ واقعے میں عسکریت پسندوں نے پولیس اہل کاروں پر متعدد اطراف سے فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں دونوں موقع ہی پر ہلاک ہوگئے تھے۔

دوسری جانب پشاور پولیس کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پولیس اہل کاروں کے زیرِ استعمال ہیلمٹ اور بلٹ پروف جیکٹس 14، 15 سال پہلے خریدی گئی تھیں اور اب یہ سامان ایکسپائر ہوچکا ہے۔

پشاور کے ایک سینئر صحافی رشید آفاق نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ 15 سال قبل خریدی گئی ان حفاظتی اشیا کی بعد میں کسی نے جانچ پڑتال یا معائنہ بھی نہیں کیا ہے۔

SEE ALSO: لکی مروت: عسکریت پسندوں کے حملے میں ڈی ایس پی سمیت چار پولیس اہلکار ہلاک

نگراں حکومت کا امن و امان پرخصوصی اجلاس

خیبر پختونخوا کے نگراں وزیرِ اعلیٰ محمد اعظم خان کی زیرِ صدارت جمعرات کو امن و امان سے متعلق ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں مجموعی صورتِ حال کا جائزہ اور آئندہ کے لائحہ عمل پر غور ہوا۔

اجلاس میں امن و امان کی صورتِ حال، دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کے لیے اٹھائے گئے اقدامات اور دیگر امور پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔

اجلاس میں نگراں وزیرِ اعلیٰ محمد اعظم خان نے پولیس اہل کاروں پر ہونے والے حملوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سی ٹی ڈی اور اسپیشل برانچ کو پولیس پر حملوں کی منصوبہ بندی کو ناکام بنانے کے لیے مزید متحرک کردار ادا کرنے کی ہدایت کی ہے۔

وزیرِ اعلیٰ نے صوبے میں اقلیتی برادری کے افراد پر ہونے والے حملوں کو تشویش ناک قرار دیتے ہوئے ہدایت کی کہ انہیں تحفظ فراہم کرنے پر خصوصی توجہ دی جائے۔

انہوں نے متعلقہ حکام کو پولیس اہل کاروں کو دہشت گرد حملوں سے محفوظ بنانے کے لیے تمام ضروری اور جدید آلات فراہم کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔