پاکستان کی فوج نے بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچ نیشنلسٹ آرمی (بی این اے) کے سربراہ گلزار امام کی گرفتاری ظاہر کر دی ہے جب کہ تنظیم نے لگ بھگ ساڑھے چار ماہ قبل گرفتاری کی اطلاع دی تھی۔
فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) نے جمعرات کو جاری ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ ایک کامیاب انٹیلی جنس آپریشن کے بعد گلزارامام عرف شمبے کو گرفتار کر لیاہے۔
فوج کا دعویٰ ہے کہ گلزار امام کی گرفتاری بی این اے سمیت دیگر عسکریت پسند گروہوں کے لیے بڑا دھچکا ہے۔تاہم فوج نے اپنے بیان میں یہ نہیں بتایا کہ گلزار امام کو کب اور کہاں سے گرفتار کیا گیا ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق گلزار امام کے افغانستان اور بھارت کے دورے ریکارڈ پر ہیں جب کہ ان کی دشمن انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ روابط کی چھان بین کی جارہی ہے۔
واضح رہے کہ گلزار امام کی گرفتاری کی خبریں ستمبر 2022 کے وسط سے ہی سامنے آ رہی تھیں۔ اطلاعات تھیں کہ اُنہیں ایران سے ترکیہ پہنچنے پر حراست میں لے کر پاکستانی حکام کے حوالے کیا گیا تھا۔
بی این اے کے ترجمان مرید بلوچ نے نومبر 2022 میں جاری کردہ ایک اعلامیے میں کہا تھا کہ گلزار امام پاکستان کے خفیہ اداروں کی تحویل میں ہیں۔
یاد رہے کہ بی این اے، علیحدگی پسند بلوچ تنظیموں بلوچ ری پبلکن آرمی اور یونائیٹڈ بلوچ آرمی کے انضمام سے وجود میں آئی تھی اور اس تنظیم نے 20 جنوری 2022کو لاہور کے انار کلی بازار میں بم دھماکے کی ذمے داری قبول کی تھی۔
فوج کے مطابق بی این اے بلوچستان کے علاقوں پنجگور اور نوشکی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں میں ملوث ہے۔
گلزار امام بی این اے کے بانی رہنما ہیں اور آئی ایس پی آر کے بیان کے مطابق علیحدگی پسند تنظیموں کے اتحاد بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) کی تشکیل میں بھی گلزار امام کا کردار رہا ہے جب کہ وہ بلوچ راجی آجوئی سانگرکے آپریشنل سربراہ بھی تھے۔
گلزار امام کون ہیں؟
وائس آف امریکہ کے لیے ضیاء الرحمٰن خان کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے شہر پنجگور سے تعلق رکھنے والے گلزار امام نے سیاست کا آغاز 2002 میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے 'امان' نامی ایک دھڑے سے کیا تھا۔
انہیں برسوں میں جب بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے تین دھڑوں کا انضمام اور اس کے بعد دوبارہ ٹوٹ پھوٹ شروع ہوئی، تو گلزار امام بلوچ علیحدگی پسند رہنما بشیر زیب کی قیادت میں بننے والے ایک دھڑے میں شامل ہو گئے۔
بشیر زیب آج کل بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے ایک دھڑے کے سربراہ ہیں۔
پنجگورکے سیاسی رہنما نے وائس آف امریکہ کو بتایاتھا کہ 2008 میں بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کو افرادی قوت فراہم کرنے کے الزامات کے سبب قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بی ایس او (آزاد) کے خلاف کریک ڈاؤن تیز کر دیا تھا۔
اس دوران گلزار امام نے بلوچ عسکریت پسند رہنما براہمداغ بگٹی کی تنظیم بلوچ ری پبلکن آرمی (بی آر اے) میں شمولیت اختیار کی اور کچھ عرصے بعد ہی انہیں بی آر اے مکران ریجن کا کمانڈر بنا دیا گیا۔
براہمداغ بگٹی سے علیحدگی
براہمداغ بگٹی ممتاز بلوچ رہنما نواب اکبر بگٹی کے پوتے ہیں جو بلوچ ری پبلکن آرمی کے ساتھ ساتھ بلوچ ری پبلکن پارٹی (بی آر پی) نامی تنظیم کے سربراہ بھی ہیں۔
سن 2006 میں ایک فوجی آپریشن میں نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد براہمداغ بگٹی افغانستان منتقل ہو گئے تھے جہاں سے کچھ عرصے بعد وہ سوئٹزرلینڈ چلے گئے۔
سن 2018 کے وسط میں گلزار امام کے براہمداغ بگٹی کے ساتھ مختلف معاملات پر اختلافات شدت اختیار کر گئے تھے جس میں ایک اہم وجہ طبقے کی بنیاد پر قیادت تھی۔
اکتوبر 2018 میں بی آر اے کی جانب سے ایک اعلامیے میں گلزار امام پر ماورائے عدالت قتل اور بھتہ وصولی میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کرتے ہوئے انہیں تنظیم سے نکالے جانے کا اعلان کیا گیا۔ یوں بی آراے دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی۔ ایک دھڑے کی سربراہی براہمداغ بگٹی جب کہ دوسرے دھڑے کی سربراہی گلزار امام کر رہے تھے۔
بی آر اے میں دھڑے بندی کے بعد گلزار امام نے ایک بیان میں یورپ میں مقیم براہمداغ بگٹی، حربیار مری اورمہران مری کا نام لیے بغیر بلوچ شورش میں شامل سرداروں پر کڑی تنقید کی تھی۔
اُن کا کہنا تھا کہ "بلوچ تحریک کی وہ قیادت جو سردار گھرانوں پر مشتمل ہے، انہیں کارکنان کے ساتھ قبائلی رویہ برتنا ترک کرنا پڑے گا اور تنظیم کے اندر موجود مسائل کا حل قبائلی نہیں بلکہ سیاسی طریقۂ کار سے نکالنا پڑے گا۔"
مبصرین کے مطابق اپنے دھڑے کی تشکیل کے بعد گلزار امام مکران کی سطح پر خصوصاً پنجگور میں ایک اہم علیحدگی پسند رہنما کے طورپر ابھر کرسامنے آئے جب کہ براہمداغ بگٹی کا دھڑا کافی کمزور ہوا۔
گلزار امام نے بی آر اے کے اپنے دھڑے کو بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) نامی مشترکہ محاذ کا بھی حصہ بنایا جو جولائی 2020 میں پاکستان میں سیکیورٹی اداروں اور چینی مفادات کو نشانہ بنانے کے لیے تشکیل دیا گیاتھا۔
براس میں بلوچ علیحدگی پسند لیڈر اللہ نذر بلوچ کی بلوچ لبریشن فرنٹ، بشیر زیب کی بلوچ لبریشن آرمی، گلزار امام بلوچ کی ری پبلکن آرمی اور بختیار ڈومکی کی بلوچ ری پبلکن گارڈز نامی چار تنظیمیں شامل تھیں۔
گیارہ جنوری 2022 کو دو بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں گلزار امام کی بی آر اے اورسرفراز بنگلزئی کی قیادت میں قائم یونائیٹڈ بلوچ آرمی (یو بی اے) کے ایک دھڑے نے انضمام کرکے 'بی این اے' کے نام سے ایک نئی علیحدگی پسند تنظیم کے قیام کا اعلان کیا۔
قانون نافذ کرنے والے ادارے گلزار امام کی گرفتاری کو بلوچستان میں جاری علیحدگی پسندی کی مسلح تحریک کے لیے ایک دھچکہ قرار دے رہے ہیں۔