پاکستان کے مرکزی بینک اور سعودی فنڈ برائے ترقی (ایس ایف ڈی) نے پیر کو ایک معاہدے پر دستخط کیے ییں۔ اس ڈپازٹ ایگریمنٹ کے تحت پاکستان کے مرکزی بینک کو تین ارب ڈالر منتقل ہوں گے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق اس رقم سے مرکزی بینک کو زرِمبادلہ کے ذخائر بڑھانے اور کرونا وبا کے اس پر پڑنے والے منفی اثرات کو زائل کرنے میں مدد ملے گی۔
اس سے قبل جمعرات کو وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے بھی اپنے ایک ٹوئٹ میں بتایا تھا کہ سعودی عرب سے پاکستان کو تین ارب ڈالرز کی منتقلی میں حائل تمام قانونی تقاضے پورے ہو گئے ہیں اور یہ رقم اسی ہفتے پاکستان کو مل جائے گی۔
'تین ارب ڈالر کے ساتھ مؤخر ادائیگیوں پر تیل بھی ملے گا'
سعودی عرب سے اس معاشی پیکج کے تحت پاکستان کو نہ صرف تین ارب ڈالرز مل رہے ہیں بلکہ 1.2 ارب ڈالرز کا تیل بھی مؤخر ادائیگیوں پر مل سکے گا۔ یوں مجموعی طور پر یہ 4.2 ارب ڈالرز پر مشتمل پیکج ہے جو سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو دیا جا رہا ہے۔
یہ معاہدہ رواں برس اکتوبر میں وزیرِ اعظم عمران خان کے سعودی عرب کے دورے کے موقع پر ہوا تھا جسے اب حتمی شکل دی گئی ہے۔ پاکستانی حکام نے اس سے قبل یہ توقع ظاہر کی تھی کہ سعودی حکومت کی جانب سے یہ رقم اس وقت تک پاکستانی خزانے میں موجود رہے گی جب تک پاکستان اکتوبر 2023 میں آئی ایم ایف سے کیا گیا معاشی پروگرام مکمل نہیں کر لیتا۔
رقم اور ادھار تیل کن شرائط پر ملے گا؟
لیکن اس معاہدے کی تفصیلات سامنے آنے پر کئی معاشی ماہرین اس پر سوالات بھی اٹھاتے نظر آ رہے ہیں۔
معاشی ماہر اور کالم نگار فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے جمع کرائی گئی یہ رقم پاکستان استعمال نہیں کر پائے گا، اس کی صرف علامتی حیثیت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ تین ماہ سے پاکستان کے غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے کمی دیکھی گئی ہے۔ جن میں گزشتہ تین ماہ میں ساڑھے چار سے پانچ ارب ڈالر کی کمی واقع ہوئی ہے اور نومبر تک درآمدات میں مزید اضافہ ہونے کے امکانات ہیں۔
اُن کے بقول ایسے میں پاکستان کو غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر مستحکم رکھنے کے لیے ڈالرز کی سخت ضرورت تھی۔ لہذٰا تین ارب ڈالرز کی منتقلی سے پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر 25 ارب ڈالرز کے قریب پہنچ جائیں گے۔
رقم کی واپسی میں کسی تنازع کی صورت میں سعودی قوانین کا اطلاق کیوں ہو گا؟
فرخ سلیم کہتے ہیں کہ قرض دینے والا اپنی شرائط کے ساتھ ہی قرض دیتا ہے۔ اسی لیے معاہدے میں یہ شق شامل کی گئی ہے کہ تنازع کی صورت میں سعودی قوانین کے تحت ہی فیصلہ ہو گا۔
فرخ سلیم کہتے ہیں کہ قرض کی یہ سہولت کڑی شرائط کے تحت پاکستان کو مل رہی ہے لیکن اس سے قبل بجلی کے حصول کے لیے کیے گئے نجی بجلی گھروں یعنی آئی پی پیز سے معاہدے بھی اسی نوعیت کے ہیں۔ جن میں ورلڈ بینک کے سیٹلمنٹ ڈسپیوٹ میکنزم کے تحت یا برطانیہ کی عدالتوں کا قانون لاگو ہوتا ہے۔ ان کے خیال میں یہ ایک پیغام بھی ہے کہ دنیا ہماری عدالتوں پر اعتماد نہیں کرتی کیونکہ یہاں تنازعات کو حل کرنے کا طریقۂ کار بہتر نہیں۔
'رقم خرچ نہیں کرنی لیکن سود ادا کرنا ہو گا'
فرخ سلیم نے بتایا کہ قومی خزانے میں اس جمع شدہ رقم جسے پاکستان خرچ کرنے کا مجاز نہیں پر ایک سال میں 120 ملین ڈالرز کا سالانہ سود ادا کرنا ہو گا۔
ان کے خیال میں غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر مستحکم رکھنے کے لیے یہ ایک بہتر اقدام ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ معاشی پیکج کے تحت پاکستان کو 1.2 ارب ڈالر کی مؤخر ادائیگیوں پر تیل بھی میسر ہو سکے گا جو ماہانہ 100 ملین ڈالر بنتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی روزانہ کی تیل کی کھپت ساڑھے پانچ لاکھ بیرل کی ہے جب کہ اس ڈیل کے تحت پاکستان روزانہ 40 سے 45 ہزار بیرل تیل ایک سال موخر ادئیگی پر حاصل کر سکے گا۔
'کمرشل معاہدوں کے تحت ڈپازٹ ایسی ہی صورت میں جمع ہوتے ہیں'
ایک اور معاشی ماہر اور پاک کویت انویسٹمنٹ کمپنی میں ہیڈ آف ریسرچ سمیع اللہ طارق کے خیال میں یہ معاشی معاہدہ کمرشل بنیادوں پر قرض کے حصول کا ہے جس میں اس قسم ہی کی شرائط کم و بیش ایسی ہی ہوتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ کوئی بہت بُری شرائط نہیں ہے لیکن قومی معیشت کے لیے اس وقت اہم مسئلہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے سے نمٹنے کا ہے جب کہ پاکستان نے پچھلے تین ماہ میں سکوک بانڈ کی ادائیگی اپنے ذخائر سے کی ہے کیونکہ پاکستان کا آئی ایم ایف سے معاہدہ نہیں ہوا تھا۔ اسی وجہ سے سعودی عرب سے ملنے والی اس رقم کی اہمیت زیادہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت پاکستان کے پاس تین ماہ سے کم کی درآمدات کے تناسب سے غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر موجود ہیں اور حکومت نے اس پیکج کو انتہائی ضروری سمجھا ہے تبھی اس نے یہ شرائط منظور کی ہیں۔
حکومتی ترجمان برائے وزارتِ خزانہ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے سعودی عرب سے ڈپازٹس ہی کا مطالبہ کیا تھا اور ڈپازٹ کی گئی رقم پر جمع کرانے والے کا ہی حق ہوتا ہے کہ وہ کب واپس لے لے۔
ترجمان کا مزید کہنا ہے کہ عام طور پر کسی تنازع کی صورت میں رقم دینے والے ملک ہی کے قوانین لاگو ہوتے ہیں۔ اور اس کا یہ مطلب قطعی نہیں کہ قومی خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ کیا گیا ہے۔
دوسری جانب وزیر اعظم کے مشرق وسطیٰ کے امور کے بارے میں مشیر حافظ طاہر اشرفی کا کہنا ہے کہ یہ دونوں ممالک کے وزارتِ خزانہ کے درمیان ہونے والا معاہدہ ہے اور وہ نہیں سمجھتے کہ اس معاہدے میں کوئی ایسی بات ہے جو پاکستان کے مفادات کے خلاف ہو اور نہ ہی سعودی عرب نے پاکستان کو کسی امتحان میں ڈالا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہر مشکل وقت میں سعودی عرب پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بارے میں بلاوجہ پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ اور اس کے پیچھے عناصر اور وجوہات کا ہمیں بخوبی علم ہے۔ سعودی عرب نے ہمیشہ کی طرح ایک بھائی کا کردار ادا کیا ہے جس پر پاکستان ان کا شکر گزار ہے۔
'بین الاقوامی تعلقات میں بہن بھائی نہیں بلکہ مفادات اہم ہوتے ہیں'
لیکن فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں بھائی بھائی کا کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔ برادرانہ تعلقات کا نعرہ محض عوامی حمایت کے لیے ہوتا ہے جب کہ حقیقت میں صرف مفادات کے تعلقات ہوتے ہیں۔
انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ قرض کی شرائط اس لیے بھی سخت ہیں کیونکہ قرض کے حصول کے لیے ضرورت کی وجہ سے پاکستان کی جانب سے انتہائی بے تابی دکھائی جا رہی ہے۔
اُن کے بقول پاکستان کو آنے والے مہینوں میں کئی بیرونی ادائیگیاں بطور قرض واپسی اور سود کی مد میں بھی کرنی ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان کے اس وقت غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر کا بڑا حصہ تو قرض سے حاصل شدہ رقوم ہی سے ہے۔ کیونکہ پاکستان کی درآمدات بڑھتی چلی جا رہی ہیں جب کہ برآمدات اس قدر تیزی سے نہیں بڑھ پا رہیں۔
سال 2018 میں کیے گئے ایسے معاہدے کے بعد کیا ہوا تھا؟
اس سے قبل 2018 میں عمران خان کی وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے بعد سعودی عرب نے پاکستان کے خزانے میں تین ارب ڈالرز رکھنے اور تیل کی رقم کی مؤخر ادائیگی کی سہولت دی تھی۔
تاہم دونوں ممالک کے درمیان اس وقت تعلقات میں سرد مہری دیکھنے میں آئی تھی جب اگست 2019 میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کر دی گئی تھی۔ اور اس معاملے پر سعودی عرب نے کھل کر بھارت کی مخالفت نہیں کی تھی۔
پاکستان کے مطالبے کے باوجود سعودی عرب نے اس معاملے پر اسلامی سربراہی کانفرنس کا اجلاس بھی طلب نہیں کیا تھا۔ جس کے بعد پاکستان کی جانب سے دبے الفاظ میں تنقید پر سعودی عرب نے پاکستان کے خزانے میں نومبر 2018 میں جمع کرائے گئے تین میں سے دو ارب ڈالر فوری واپس لے لیے تھے۔ جب کہ پاکستان کو مؤخر ادائیگیوں پر تیل کی فراہمی کے معاہدے کی میعاد 2020 میں ختم ہونے کے بعد تجدید نہیں کی گئی تھی۔
کئی معاشی ماہرین کے خیال میں اس کی وجہ بھارت اور سعودی عرب کے درمیان 27 ارب ڈالر کی باہمی تجارت ہے جب کہ پاکستان کے ساتھ تجارت کا حجم محض 3.6 ارب ڈالر کا ہے۔ اور سعودی عرب اپنے بڑے تجارتی پارٹنر کو کشمیر کا معاملہ اٹھا کر ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔