حمزہ کی حلف برداری میں تاخیر، اس وقت پنجاب کا انتظامی سربراہ کون ہے؟

پاکستان کے صوبے پنجاب کے گورنر کی جانب سے نو منتخب وزیرِ اعلٰی پنجاب حمزہ شہباز سے حلف نہ لینے کے باعث صوبے میں آئینی بحران بدسستور برقرار ہے۔ ادھر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے سردار عثمان بزدار کے استعفے کے دوران آئینی تقاضے پورے نہ ہونے کے بیان نے کئی قانونی سوالات کو جنم دیا ہے۔

پنجاب کی سیاسی صورتِ حال کے باعث آئینی اور قانونی حلقے یہ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ اس وقت صوبے کا چیف ایگزیکٹو کون ہے اور موجودہ آئینی بحران کے دوران پیدا ہونے والا خلا کون پر سکتا ہے؟

سردار عثمان بزدار کے گزشتہ ماہ استعفے کے بعد سے ہی صوبے میں سیاسی افراتفری کا ماحول ہے جس میں شدت16 اپریل کو آئی جب قائدِ ایوان کے انتخاب کے دوران پنجاب اسمبلی میں پولیس اور اراکینِ اسمبلی کئی گھنٹے تک دست و گریباں رہے۔ ایسے میں آخر کار حمزہ شہباز وزیرِ اعلی منتخب ہو گئے، تاہم اب اُن کے حلف کا معاملہ تعطل کا شکار ہے۔

سیاسی کھینچا تانی میں معاملات ایک مرتبہ پھر عدلیہ کی جانب جاتے نظر آ رہے ہیں۔ مبصرین کی رائے میں سیاستدانوں کو اپنے معاملات خود حل کرنے چاہیئں کیوں کہ آپس کی لڑائیوں میں بار بار عدلیہ سے رُجوع کرنا مناسب نہیں ہے۔

گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کی جانب سے عثمان بزدار کے استعفٰی سے متعلق مانگی جانے والی رائے پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے بذریعہ خط جواب دیتے ہوئے کہا کہ عثمان بزدار کا استعفی آئین کے آرٹیکل 130 کی سب شق 8 کی خلاف ورزی ہے۔ جس کے بعد گورنر پنجاب نے بدھ کی شام آئینی ماہرین کا اجلاس طلب کر لیا ہے۔

پنجاب کی وزارتِ اعلٰی کے لیے حمزہ شہباز اور چوہدری پرویز الہٰی کے درمیان مقابلہ تھا۔

'وزیرِ اعلٰی اپنا استعفیٰ گورنر کو بھجواتا ہے یہاں وزیرِ اعظم کو بھجوا دیا گیا'

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس سمجھتے ہیں کہ جب آئین کے مطابق استعفٰی دیا جاتا ہے تو آرٹیکل 130 کی ذیلی شق 8 کے مطابق وزیراعلٰی اپنا استعفیٰ گورنر کو بھجواتا ہے جب کہ عثمان بزدار نے اپنا ٹائپ شدہ استعفٰی اپنے دستخط کے ساتھ وزیراعظم کو بھجوایا تھا۔ جسے گورنر صاحب نے منظور کر لیا، لیکن بعد ازاں اُس وقت کے گورنر چوہدری سرور نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ اُن سے آئینی غلطی ہو گئی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے احمد اویس کا کہنا تھا کہ آئین میں صدر، وزیراعظم، گورنر اور وزیراعلٰی کے استعفوں کا طریقۂ کار وضاحت سے درج ہے۔

اُن کے بقول آئین کے مطابق وزیراعلی کو استعفی تحریری طور پر گورنر کو دینا چاہیے تھا۔ عثمان بزدار نے استعفی وزیراعظم کو دیا جو اسے منظور کرنے کے مجاز نہیں تھے۔ یہ تمام اختیارات آئینی طور پر گورنر پنجاب کے پاس ہیں۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمٰن شامی سمجھتے ہیں کہ عثمان بزدار کا استعفٰی منظور ہوا یا نہیں ہوا یہ ایک الگ بحث ہے۔ اِس بارے ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔ اِس سلسلے میں گورنر پنجاب مشاورت کر رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ یوں لگتا ہے کہ گورنر کی کوشش ہے کہ عثمان بزدارکے استعفے کو خلافِ ضابطہ قرار دلوایا جائے۔

یاد رہے عثمان بزدار نے بطور وزیراعلٰی پنجاب اپنا استعفٰی 28 مارچ کو وزیراعظم کو دیا تھا۔ جسے چند دِن بعد اُس وقت کے گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے قبول کر لیا تھا۔ تاہم بعد ازاں ایک سرکاری مراسلے میں اُنہیں اگلے وزیراعلٰی کے انتخاب تک کام کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

واضح رہے کہ حمزہ شہباز کے بطور وزیراعلٰی پنجاب کے حلف میں تاخیر اور عثمان بزدار کے استعفٰی کو غیر قانونی قرار دینے کے حوالے سے درخواستیں عدالتِ عالیہ لاہور نے سماعت کے لیے مقرر کر دی ہیں جن پر سماعت جمعرات کو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ محمد امیر بھٹی کریں گے۔

کیا عثمان بزدار اب بھی وزیراعلٰی ہیں؟

مجیب الرحمٰن شامی کی رائے میں پنجاب کے وزیراعلٰی عثمان بزدار ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ آئین کے مطابق جب تک نیا وزیراعلٰی حلف نہیں لیتا، اُس وقت تک نگران وزیرِ اعلٰی ہی اس منصب پر فائز رہتا ہے۔

اگر وزیراعلٰی کا استعفٰی آئین کے مطابق نہیں تو اِس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ اب بھی پنجاب کے وزیر اعلی ہیں؟ اِس بات کا جواب دیتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے کہا کہ موجودہ صورتِ حال میں عثمان بزدار ہی وزیراعلٰی کے طور پر کام کرتے رہیں گے جب تک کہ نئے وزیراعلٰی کا حلف نہیں ہو جاتا۔

حمزہ شہباز کے حلف میں تاخیر کیوں؟

احمد اویس نے بتایا کہ آئین میں واضح طور پر لکھا ہے کہ جب گورنر اپنے عہدے کا حلف لیتا ہے تو کہتا ہے کہ وہ پاکستان کے آئین کا دفاع کرے گا جس پر گورنر صاحب کا مؤقف ہے کہ جس طرح سے پنجاب کے نئے قائدِ ایوان کا الیکشن ہوا ہے اس پر انہیں تحفظات ہیں اور وہ قانونی ماہرین کے ساتھ مشاورت کر رہے ہیں۔

احمد اویس کے بقول وزیرِ اعلٰی کا انتخاب کراتے وقت عدالتی حکم عدولی کی گئی۔پولیس کی مدد سے انتخاب کرایا گیا جب کہ ایک اُمیدوار زخمی تھا اور ارکانِ اسمبلی کو ایوان سے باہر نکال دیا گیا تھا جس کی رپورٹ اسمبلی کی جانب سے گورنر کو بھجوا دی گئی ہے۔

احمد اویس کہتے ہیں کہ وزیرِاعلٰی کے حلف سے متعلق آئین میں ہدایت موجود ہے۔ آئین کے آرٹیکل 104 میں لکھا ہے کہ اگر گورنر غیر حاضر ہیں یا کسی بھی وجہ سے وہ حلف نہیں لیتے تو اسپیکر حلف لینے کے مجاز ہیں۔ موجودہ صورتِ حال میں چونکہ اسپیکر خود وزارتِ اعلٰی کے اُمیدوار تھے ، لہذٰا وہ بھی حلف لینے کے لیے کسی صورت تیار نہیں ہوں گے۔

احمد اویس کے مطابق ایسی صورتِ حال میں آئین کے تحت صدرِ مملکت کو صورتِ حال سے آگاہ کیا جائے گا جس پر وہ کسی آئینی عہدے دار کو حلف لینے کے لیے نامزد کر سکتے ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

موروثی سیاست کی تنقید کی زد میں رہنے والے بلاول کا سیاسی کریئر


مجیب الرحمٰن شامی سمجھتے ہیں کہ نئے قائدِ ایوان کے حلف میں تاخیر سے صوبے میں آئینی بحران پیدا ہو چکا ہے۔

اُن کے بقول پاکستان میں ایسی صورتِ حال پہلے کبھی پیش نہیں آئی۔ صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے بھی وزیراعظم سے حلف نہیں لیا، لیکن اُنہوں نے چیئرمین سینٹ کو نامزد کر دیا تھا کہ وہ حلف لے گا۔

مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ جس طرح صدرِ مملکت نے حلف کے لیے چیئرمین سینیٹ کو نامزد کیا اسی طرح گورنر پنجاب بھی کسی دوسرے شخص کو وزیرِ اعلٰی سے حلف لینے کے لیے کہہ سکتے ہیں۔

اُن کے بقول اب تمام نظریں لاہور ہائی کورٹ پر جمی ہیں کہ وہ اس ساری صورتِ حال میں کیا فیصلہ کرتی ہے۔ اُدھر سے کوئی ہدایت آئے تو یہ گتھی سلجھائی جا سکے گی جس کے بعد ہی گاڑی چلے گی۔