بھارتی کشمیر میں زمینوں کی الاٹمنٹ کے معاملے پر تنازع

سری نگر، فائل فوٹو

ؓبھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں بے گھر افراد کے لیے دو لاکھ گھر تعمیر کرنے کے معاملے پر تنازع کھڑا ہو گیا ہے۔ حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ان افراد کی فہرست سامنے لائی جائے جنہیں یہ گھر دیے جائیں گے۔

ان جماعتوں کا مؤقف ہے کہ بھارتی حکومت نے 2021میں نئی دہلی میں پارلیمان میں بتایا تھا کہ جموں و کشمیر میں بے گھر کنبوں کی کل تعداد19ہزار 47ہےاور یہ استفسار کیا ہے کہ صرف دو برس کے عرصے میں یہ تعداد بڑھ کر دو لاکھ کیسے ہو گئی؟

رواں ہفتے کے آغاز پر جموں و کشمیر کے سربراہِ انتظامیہ لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے یہ اعلان کیا تھا کہ علاقے میں ایک لاکھ 99 ہزار سے زائد بے زمین کنبوں کی نشان دہی کی گئی ہے۔

انتظامیہ نے پردھان منتری آواس یوجنا (گرامین) یا پی ایم ا ےوائی جی کے تحت ہر کنبے کو پانچ مرلہ زمین الاٹ کرنے کی منظوری دی تھی تاکہ وہ اس پر اپنے گھر تعمیر کرسکیں اور روز گارکماسکیں۔

پی ایم اے وائی جی ایک ایسی سماجی فلاحی اسکیم ہے جس کا بھارتی وفاقی حکومت نے جون 2015 میں اعلان کیا تھا اور جس کے تحت ملک بھر میں بے گھر افراد کو گھر فراہم کرنا مقصود ہے۔

اس اسکیم کے تحت بھارت کے دیہی علاقوں میں 2022 تک دو کروڑ گھر تعمیر کرنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا تھا ۔ اسی طرح کی ایک اسکیم کا اعلان شہری علاقوں کے بے گھر افراد کے لیے بھی کیا گیا تھا۔

SEE ALSO: بھارتی کشمیر سے ہندو پنڈتوں کی نقل مکانی؛ حالات اور اسباب کیا ہیں؟

منوج سنہا نے جموں وکشمیر میں ان اسکیموں کے تحت بے گھر اور بے زمین افراد کو زمین الاٹ کرنے کے حکومت کے فیصلے کو ایک تاریخی فیصلہ قرار دیا تھا اور کہا تھا اس سے وہ کنبے بھی مستفید ہوں گے جو اس وقت سرکاری اراضی یا محکمہ جنگلات کی اراضی پر رہ رہے ہیں۔

لیفٹننٹ گورنر نے صحافیوں کو بتایا کہ "یہ تاریخ ساز فیصلہ نہ صرف بے زمین غریب شہریوں کو زمین فراہم کردے گا جس پر وہ اپنے لیے آشیانہ بناسکیں گے بلکہ اس سے ان کے لیے روز گار کمانے کا وسیلہ بھی پیدا ہوگا جو ان کے معیارِ زندگی کو بہتر بنا دے گا۔

اس استفسار کے جواب میں کہ کیا سابقہ مغربی پاکستان کے پناہ گزین بھی اس اسکیم سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔لیفٹننٹ گورنر نے کہا تھا" ایک باضابطہ معیارِ اہلیت پر عمل کیا جارہا ہے جو بھی مستحق ہے اُسے اس اسکیم کے زمرے میں لایا جائے گا۔

حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے تحفظات

حزبِ اختلاف کی ایک بڑی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے سرینگر میں ایک پریس کانفرنس میں حکومت کی اعلان کردہ 'بے گھر افراد کے لیے گھر' پالیسی پر خدشات کا اظہار کیا۔

اُن کا کہنا تھا کہ انتظامیہ بے گھر افراد کو گھر فراہم کرنے کی آڑ میں جموں و کشمیر میں جھگی بستیاں اور غربت"درآمد " کررہی ہے اور اس کا مقصد ان کے بقول اس مسلم اکثریتی ریاست کی آبادیات کوتبدیل کرنا ہے۔

محبوبہ مفتی نے پوچھا کہ اگراس اسکیم کا مقصد واقعی بے گھر افراد کو گھر فراہم کرنا ہے تو کشمیری برہمن ہندوؤں کو جو کشمیری پنڈت کہلاتے ہیں اور جنہیں وادی کشمیر میں 1989 میں مسلح تحریکِ مزاحمت کے فورا" بعد تشدد سے بچنے کے لیے اپنے گھر بار چھوڑ کر جموں اور بھارت کے مختلف علاقوں میں پناہ لینا پڑی تھی اس اسکیم کے تحت گھر بنانے کے لیے زمینیں الاٹ کیوں نہیں جا رہی ہیں؟

انہوں نے حکومت پر جموں و کشمیر کے ساتھ "مالِ غنیمت" کا طرزِ عمل اختیار کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ وہ اس کے حقیقی عوام کی فلاح و بہبود کو بالکل نظر انداز کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی پالیسیاں اور اقدامات مقامی لوگوں کو اشتعال دلانے کا موجب بن سکتی ہیں۔

SEE ALSO: جموں کو بھارتی کشمیر سے الگ ریاست بنانے کا مطالبہ پھر زور پکڑنے لگا

ایک اور سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبد اللہ نے حکومت سے یہ وضاحت طلب کہ کون لوگ ہیں جنہیں زمینیں الاٹ کی جارہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "حکومت کو چاہیے کہ وہ ان کے نام اور دیگر کوائف مشتہر کرے۔ اس سلسلے میں شفافیت کا مظاہرہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔"

عمر عبداللہ نے مزید کہا کہ حکومت کو عوامی حلقوں میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کو دور کرنا چاہیے۔ کون لوگ ہیں جنہیں بے گھر کنبوں کے زمرے میں لایا گیا ہے ۔ انہیں زمینیں فراہم کرنے کے لیے مقرر کردہ معیار کی تشہیر بھی ہونی چاہیے۔

استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کے اتحادحریت کانفرنس نے کہا ہے کہ حکومت کے اعلان نے عام لوگوں میں شکوک و شبہات اور خدشات کو جنم دیا ہے۔

حریت نے کہا کہ اگست 2019 کے بعد جموں و کشمیر میں یک طرفہ فیصلے لیے گئے ہیں چنانچہ ریاست کی تقسیم اور اسے مرکز کے زیر انتظام علاقہ قرار دینا اور نئے قوانین اور ضوابط لاگو کرکے ریاست میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے اور لوگوں کو بے اختیار بنانے کی کوششیں مسلسل جاری ہیں۔

حریت نے کہا کہ لوگوں کے تحفظات دور کرنے کے تعلق سے حکام کو اس ضمن میں اپنی پالیسی واضح کرنی چاہئے کہ آخر’’ بے گھر لوگ‘‘ کون ہیں جنہیں یہاں زمین مہیا کی جائے گی اور ان کی درجہ بندی کا معیار کیا ہے؟

حکومت نے ایک بیان جاری کر دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کے موجودہ زرعی قوانین میں کسی قسم کی ترمیم یا چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے اور نہ باہر کے لوگوں کو گھر یا زمینیں الاٹ کرکے انہیں جموں و کشمیر میں بسایا جا رہا ہے۔

جمعے کو سرینگر میں منعقدہ ایک سرکاری تقریب سے خطاب کرتے ہوئے منوج سنہا نے کہا کہ بے گھر اور بے زمین کنبوں کو زمینیں الاٹ کرنے کے اعلان نے کچھ لوگوں کی نیندیں حرام کردی ہیں۔

جموں و کشمیر پیپلز کانفرنس کے چیئرمین اور سابق وزیر سجاد غنی لون نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ "اب چوں کہ سوالات پوچھے جا رہے ہیں ریاستی انتظامیہ کے لیے اس بات کی وضاحت کرنا دانش مندی ہو گی کہ آیا صرف ان بے زمین اور بے گھر لوگوں ہی کو زمینیں الاٹ کی جا رہی ہیں۔"