چین اور پاکستان بیجنگ کے عالمی 'بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو'کے ذریعے اقتصادی تعاون کے پروگرام 'سی پیک' کے10 سال مکمل کر رہے ہیں۔ لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں چینی شہریوں کے لیے دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرات اور قرضوں کی ادائیگی پر اختلافات مشترکہ بنیادی ڈھانچے کی پیش رفت میں رکاوٹ ہیں۔
وائس آف امریکہ کے نامہ نگار ایاز گل کی رپورٹ کے مطابق ملٹی بلین ڈالر پروگرام چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) 2013 میں متعارف کرایا گیا تھا اور اسے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو یا BRI کی فلیگ شپ توسیع کا نام دیا گیا تھا - اس توقع کے ساتھ کہ یہ منصوبہ پاکستان کو اقتصادی رابطے کے لیے ایک علاقائی مرکز میں بدل دے گا۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کی وجہ سے تقریباً دو لاکھ براہِ راست مقامی ملازمتیں پیدا ہوئی ہیں جب کہ 1,400 کلومیٹر سے زیادہ شاہراہیں اور سڑکیں بنائی گئیں اور آٹھ ہزار میگا واٹ بجلی قومی گرڈ میں شامل کی گئی۔
حکام کا خیال ہے کہ سی پیک منصوبے کے تحت لگائے گئے بجلی کے منصوبوں سے لگ بھگ 23 کروڑ آبادی والے ملک میں بجلی کی بندش کی وجہ سے برسوں کے بلیک آؤٹ کا خاتمہ ہوا ہے۔
تاہم پاکستان چین اقتصادی راہداری منصوبے کا اہم جز و سمجھی جانے والی گوادر بندرگاہ اور اس سے ملحقہ شہر بجلی کی شدید کمی کا شکار رہا ہے جس کے باعث نہ صرف عوام کے معمولات زندگی متاثر ہوئے بلکہ بندرگاہ بھی مکمل طور پر فعال نہیں ہوسکی ہے۔
گوادر اور مکران ڈویژن کے دیگر دو اضلاع کا ملک کے نیشنل گریڈ اسٹیشن سے منسلک نہ ہونے کے باعث بجلی کی فراہمی کا دارومدار اس وقت ایران پر ہے۔
بلوچستان کی قوم پرست تحریکوں کو سی پیک منصوبے سےشکایت ہے کہ صوبے کے وسائل کا فائدہ وہاں کے عوام کو نہیں مل رہا۔اس بے اطمینانی کے نتیجےمیں چینی باشندوں پر پاکستان کے مختلف شہروں میں ہلاکت خیز حملے بھی ہوئے ہیں۔
چینی حکومت نے اس بارے میں شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانی حکام سے چینی شہریوں کی سیکیورٹی یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
پاکستان اور چین دس برس مکمل ہونے پر کیا کہتے ہیں؟
ایاز گل نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہےکہ دونوں ممالک کے حکام کا کہنا ہے کہ سی پیک نے براہِ راست چینی سرمایہ کاری میں 25 بلین ڈالر سے زیادہ کو راغب کیا ہے، جو کہ 2030 تک بڑھ کر 62 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے، جب متعدد صنعتی زونز سمیت سی پیک کے تمام منصوبے مکمل ہونےکی توقع ہے۔
اسلام آباد میں چینی سفارت خانے کی چارج ڈی افیئرز پینگ چنکسو ن نے بدھ کو سی پیک منصوبے کے دس سال منعقد ہونے پر منعقدہ تقریب میں بات کرتے ہوئے کہا "مجھے یہ کہتے ہوئے خوشی اور فخر ہے کہ سی پیک، بی آر آئی کے سب سے کامیاب منصوبوں میں سے ایک ہے، جسے دنیا بھر میں اس اقدام کا ’فلیگ شپ‘ قرار دیا گیا ہے۔"
انہوں نے کہا کہ ہمیں مکمل یقین ہے کہ سی پیک کے 10 سالہ کامیاب آپریشن کے بعد، چین اور پاکستان ایک نئے دور میں مشترکہ طور پرسی پیک کی اعلیٰ معیار کی ترقی کو فروغ دینے اور ایک دوسرے کے زیادہ نزدیک ایک ایسی چینی پاکستانی کمیونٹی کی تعمیر کے لیے شانہ بشانہ آگے بڑھتے رہیں گےجس کا مشترکہ مستقبل ہوگا۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شہباز شریف نے بھی تقریب سے خطاب میں کہا کہ سی پیک منصوبہ پاکستان کی سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے اہم رہا ہے۔ ان کی حکومت منصوبے کے ’امکانات‘ کو "مکمل طور پربروئے کار لانےکے لیےپرعزم ہے۔
پاکستان میں چینی مفادات حالیہ برسوں میں عسکریت پسندوں کے حملوں کی زد میں آئے ہیں، جس نے چین میں رہنماؤں کو برہم کیا ہے اورانہوں نے اسلام آباد سے اپنے شہریوں کی حفاظت میں اضافہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ناقدین کہتے ہیں کہ بدھ کو منصوبے کی 10 ویں سالگرہ کے لیے منعقد ہونے والی تقریب میں بیجنگ سے کوئی قابلِ ذکر چینی رہنما موجود نہیں تھا، جس سے سیکورٹی پر تناؤ اور اقتصادی اقدام سے پیدا ہونے والے دیگر مسائل اجاگر ہوتے ہیں۔
سی پیک کی قوت نمو
حالیہ برسوں میں پاکستان کی معاشی مشکلات مزید گہری ہوئی ہیں، کچھ ناقدین سی پیک کی سرمایہ کاری کواس میں ا اہم کردار ادا کرنے والے عنصر کے طور پر ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
موجودہ حکومت نے گزشتہ ہفتے تین ارب ڈالر کے قلیل مدتی آئی ایم ایف بیل آؤٹ معاہدے کے حصول سے فوری ڈیفالٹ کے خطرے کو ٹال دیا تھا، جو اس ماہ کے آخر میں فنڈ کے بورڈ کی منظوری سے مشروط ہے۔
واشنگٹن کے ولسن سینٹر میں ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین کہتے ہیں سی پیک کے بارے میں بہت زیادہ تشہیر کی گئی ہےتاہم وہ اپنے’دھوم دھڑکے‘ پر پورا اترنے میں ناکام رہا ہے۔
وائس آف امریکہ کو اپنے تحریری بیان میں کوگل مین نے کہا کہ حالیہ برسوں میں پاکستان پر اقتصادی دباؤ اور چین کے سیکیورٹی خدشات کے امتزاج نےسی پیک کی رفتار کو سست کر دیا ہے۔ دونوں دارالحکومتوں کی جانب سے بیانات میں مسلسل اضافے کےباوجود کاریڈور کی پیشرفت کو بڑا دھچکا پہنچا ہے۔
کیا پاکستان چینی قرضوں کے جال میں پھنس گیا ہے؟
پاکستان چینی پاور پلانٹس کا 1.26 بلین ڈالر (350 ارب روپے) سے زیادہ کا مقروض ہے۔ اس رقم میں اضافہ ہو رہا ہے اور چین نے سی پیک قرضوں کی ادائیگی کو مؤخر کرنے یا تنظیم نو کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
سرکاری اور کمرشل بینکوں سمیت چین کے تمام قرضے، اسلام آباد کے بیرونی قرضوں کا تقریباً 30 فی صدہیں۔
اس ہفتے ایک جاپانی میڈیا آؤٹ لیٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستانی وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے ان دعوؤں کو مسترد کر دیا تھا کہ ان کا ملک چین کے "قرض کے جال" میں پھنس گیا ہے۔
بلاول نے دعوِیٰ کیا کہ پاکستان کے لیے چین کی زیادہ تر امداد سرمایہ کاری یا نرم قرضوں کی شکل میں ہے۔