جوڈیشل کمیشن اجلاس کی ریکارڈنگ: ' ایسے کیسے میٹنگ ختم ہو گئی کہ چیئرمین اُٹھ کر چلے گئے'

"یہ ایسے کیسے میٹنگ ختم ہو گئی کہ چیئرمین اٹھ کر چلے گئے، میرا ان کو پھر بھی شکریہ۔۔ یہ الفاظ ہیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے جو ججز تعیناتی کے حوالے سے اجلاس میں چیف جسٹس کی طرف سے دیے گئے ناموں کو مسترد کرنے کے معاملے پر بات کررہے تھے کہ اچانک چیف جسٹس اجلاس ختم کرکے روانہ ہوگئے۔"

سپریم کورٹ کے ججز اور دیگر ممبران کے درمیان نئے جج تعینات کرنے کے حوالے سے تنازع شدت اختیار کررہا ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان میں نئے ججز کی تعیناتی کے لیے دو ججز کے سپریم کورٹ کے اعلامیہ میں غلط بیانی کرنے کے الزامات کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جوڈیشل کمیشن اجلاس کی آڈیو سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جاری کردی ہے۔

سپریم کورٹ کے مطابق نئے ججز کی تعیناتی کے لیے پیش کیے گئے نام مسترد نہیں ہوئے بلکہ اٹارنی جنرل اشتراوصاف سمیت پانچ ممبران نے معاملہ مؤخر کرنے کا کہا جس کے بعد اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے جمعرات کو ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ججز تعیناتی کے حوالے سے اجلاس ملتوی کر دیا گیا ہے اور ججز کے ناموں پر غور مزید تفصیلات ملنے تک مؤخر کردیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ کے دو ججز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود نے دو خطوط لکھے جو میڈیا کو بھی جاری کیے گئے اور ان میں سپریم کورٹ کے اعلامیہ کو غلط قرار دیا۔ ان خطوط کے مطابق پیش کردہ ججز کے ناموں کو مسترد کردیا گیا جب کہ سپریم کورٹ کے اعلامیہ میں ان ناموں کو مؤخر کرنے کا بتایا گیا ہے۔


جسٹس فائز عیسیٰ کا خط

چیف جسٹس کے بعد سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کو خط لکھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ جوڈیشل کمیشن میں ججز کی تقرری کے حوالے سے ہونے والے فیصلے کو فوری طور پر میڈیا میں جاری کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ججز تقرری چیف جسٹس کی طرف سے پیش کردہ ناموں پر تفصیلی غور ہوا، مجھ سمیت پانچ ممبران نے سندھ کے تین اور لاہور ہائی کورٹ کے ایک جونیئر جج کے نام مسترد کر دیے۔

جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ان کے علاوہ جسٹس سردار طارق مسعود، وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ، اٹارنی جنرل اشتر اوصاف اور پاکستان بار کونسل کے نمائندے اختر حسین نے بھی یہ نام مسترد کیے۔جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس پانچوں ہائی کورٹ کے چیف جسٹسز میں جونیئر ہیں۔ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا نام ان چیف جسٹسز کے بعد پیش کیا جائے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا خط میں کہنا تھا کہ اس اجلاس میں طے ہوا کہ آئین کسی آسامی پر پیشگی تقرری کی اجازت نہیں دیتا،چیف جسٹس آف پاکستان بطور چیئرمین کمیشن پر اپنے فیصلے مسلط نہیں کر سکتے۔

جسٹس فائز عیسیٰ کے مطابق چیف جسٹس جسٹس عمر عطا بندیال اچانک جوڈیشل کمیشن کا اجلاس چھوڑ کر چلے گئےجس کے بعد جسٹس اعجاز الاحسن بھی اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے۔

جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ جوڈیشل کمیشن کے سیکریٹری چھٹیوں پر ہیں، قائم مقام سیکریٹری اجلاس کے فیصلوں کے بارے میں میٹنگ منٹس بنائیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ (فائل فوٹو)

انہوں نے کہا کہ قوم کی نظریں جوڈیشل کمیشن کے اجلاس پر مرکوز ہیں، اجلاس میں کیا فیصلہ ہوا یہ جاننا عوام کا آئینی حق ہے، جوڈیشل کمیشن اجلاس کے بارے میں میڈیا میں غیر ضروری قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔

جسٹس قاضی فائز نے خط میں بتایا کہ جوڈیشل کمیشن نے سندھ اور لاہور ہائی کورٹ کے چار ججوں کے نام مسترد اور ایک نام پر کوئی فیصلہ نہیں کیا۔

جسٹس سردار طارق مسعود کا خط

جوڈیشل کمیشن کے ممبر اور سپریم کورٹ کے جج جسٹس سردار طارق مسعود نے بھی جسٹس فائزعیسیٰ کی طرح چیف جسٹس اور کمیشن کے چئیرمین جسٹس عمرعطا بندیال کو خط لکھا جس میں انہوں نے سپریم کورٹ کے اعلامیہ پر اعتراض کیا اور اسے حقائق کے منافی قرار دیا۔

جسٹس طارق مسعود نے چیف جسٹس کے رویے کو غیر جمہوری عمل قرار دیتے ہوئے لکھا کہ جوڈیشل کمیشن کا اجلاس شروع ہوا تو چیف جسٹس نے اپنے نامزد ججز کے کوائف کے بارے میں بتایا، پھر جسٹس ریٹائرڈ سرمد جلال عثمانی نے چار ججز کی تقرری کے حق میں جب کہ ایک جج کی تقرری کے خلاف رائے دی۔

جسٹس طارق نے کہا کہ میں نے بھی اپنی باری پر رائے دی اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ کی سپریم کورٹ میں تقرری کی رائے دی، کیوں کہ چیف جسٹسز ہائی کورٹس میں جسٹس اطہر من اللہ سینئر ترین جج ہیں۔

جسٹس طارق مسعود کے مطابق کمیشن کے دیگر ممبران میں شامل جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ نے چیف جسٹس کے دیے گئے ناموں کی منظوری دی۔ لیکن اُنہوں نے سندھ ہائی کورٹ کے تین اور لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج کی نامزدگی کو نامنظور کیا، اس کے بعد اٹارنی جنرل ، وزیر قانون اور بار کونسل کے نمائندوں نے مجھ سے اتفاق کرتے ہوئے چار نامزد ججز کی تقرری کو نامنظور کیا۔

جسٹس طارق مسعود نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی نے چیف جسٹس کے نامزد ججوں کو نامنظور کرنے کے حوالے سے میری رائے سے اتفاق کیا ۔جب جسٹس قاضی فائز عیسی چیف جسٹس کے ناموں کو نامنظور کرنے کی وجوہات بتا رہے تھے تو اس دوران ہی اُن کے بقول چیف جسٹس عمرعطا بندیال غیر معمولی اور غیر جمہوری عمل کرتے ہوئے کمیشن کا فیصلہ لکھوائے بغیر اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے۔

اس صورتِ حال سے معاملہ واضح ہو گیا تھا کہ کمیشن کے پانچ ارکان نے نامزدگیوں کو نامنظور کر دیا تھا، تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال رائے سننے کے بعد فیصلہ سنانے کے بجائے اچانک میٹنگ سے اٹھ گئے۔

جسٹس سردار طارق مسعود کا کہنا تھا کہ اجلاس میں ارکان نے پانچ اور چار کے تناسب سے پانچوں نام مسترد کیے۔


انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس صاحب فوری طور پر جوڈیشل کمیشن اجلاس کے درست منٹس جاری کریں کیوں کہ جوڈیشل کمیشن کے تفصیلی منٹس پبلک کرنے سے افواہوں کا خاتمہ ہوگا۔انہوں نے سپریم کورٹ ترجمان کی طرف سے جاری کردہ اعلامیہ حقائق کے برعکس قرار دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ ترجمان جوڈیشل کمیشن کا ممبر ہے اور نہ ہی سیکریٹری۔

یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ اجلاس کے حوالے سے خبریں مقامی میڈیا میں ذرائع سے اعلامیہ سے قبل جاری کی گئیں جن میں چار اور پانچ کے تناسب سے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی طرف سے پیش کردہ ججز کے نام مسترد ہونے کا بتایا گیا جبکہ سپریم کورٹ کا اعلامیہ رات گئے جاری ہوا تھا۔

اجلاس کی آڈیو جاری

سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر ترجمان کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے ترجمان کی طرف سے بیان چیف جسٹس اور چیئرمین جوڈیشل کمیشن کے احکامات پر جاری کیا گیا جس پر دو ججز کی طرف سے جاری کردہ بیانات نے اعلامیہ کو متنازع بنا دیا۔ ان بیانات کی وجہ سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر ایک تنازع نظر آ رہا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ اس غیرمعمولی صورتِ حال میں کمیشن کے چئیرمین نے جوڈیشل کمیشن رولز کو ریلیکس کرتے ہوئے اجلاس کی آڈیو فائل سرکاری ویب سائٹ پر جاری کرنے کا حکم دیا ہے۔

ترجمان کا کہنا ہے کہ اس آڈیو ریکارڈنگ میں 1گھنٹہ اور 29 منٹ سے لیکر 1 گھنٹہ 38 منٹ پر اٹارنی جنرل اشتراوصاف نےکہا کہ اس معاملہ پر رولز بنانے کے لیے بہتر ہےکے معاملے کو مؤخر کردیا جائے۔

اٹارنی جنرل نے کسی بھی جج کی تعیناتی کے حوالے سے جانچنے یا مسترد کرنے کی کوئی بات نہیں کی، اس کے نتیجہ میں کمیشن کے پانچ ممبران نے اجلاس ملتوی کرنے کی بات کی اور 28 جولائی کو جاری کردہ پریس ریلیز میں اسی بات کا تذکرہ کیا گیا کہ یہ معاملہ آئندہ اجلاس تک مؤخر کردیا جائے۔

2گھنٹے اور 25 کی اس آڈیو ریکارڈنگ میں تمام ممبران کی گفتگو کا ریکارڈ موجود ہے۔ اس گفتگو کا آغاز جسٹس عمرعطا بندیال نے قرآنی آیت سے کیا اور اس کے بعد ججز کے پروفائل سنائے۔

دوران اجلاس تمام ممبران بات کرتے رہے لیکن آخری حصہ میں جسٹس فائز عیسیٰ نے پرزور انداز میں ان ناموں کی مخالفت کی اور کہا کہ ہم ان ناموں کو مسترد کرتے ہیں لیکن جسٹس عمر عطا بندیال نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔

آڈیو کے آخری حصہ میں جسٹس فائز عیسیٰ بات کررہے تھے کہ چیف جسٹس نے ان کو دو مختلف مواقع پر ٹوکا جس پر انہوں نے کہا کہ مجھے بات تو کرنے دیں اور اسی دوران چیف جسٹس نے اجلاس ختم کرنے کا کہہ دیا جس پر جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ ایسے کیسے میٹنگ ختم ہوگئی۔ چئیرمین اٹھ کر چلے گئے، میرا پھر بھی ان کو شکریہ۔ان الفاظ کے ساتھ ہی آڈیو ریکارڈنگ بھی بند ہوگئی۔

ججز تعیناتی معاملہ ہے کیا؟

سپریم کورٹ آف پاکستان میں اس وقت خالی نشستوں کے لیے چار جج صاحبان کی نشستیں خالی ہیں جن پر تقرری ہونا ہے۔

قانون کے مطابق جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی سفارشات پر ان جج صاحبان کے نام حکومت کو بھجوائے جانے ہیں۔ کمیشن کے ممبران جن میں چیف جسٹس سمیت چار سینئر ججز ،ایک ریٹائرڈ جج، وزیرقانون، اٹارنی جنرل اور پاکستان بار کونسل کا نمائندہ شامل ہوتا ہے، ان تعیناتیوں کی منظوری دیتے ہیں۔

یہ نام پارلیمنٹ کی پارلیمانی کمیٹی میں بھجوائے جاتے ہیں جہاں منظوری کے بعد ان ججز کو سپریم کورٹ میں تعینات کیا جاتا ہے۔

اس وقت سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس عمرعطا بندیال کے حوالے سے مختلف بار کونسلز اور بعض ججز اعتراض کررہے ہیں کہ ہائی کورٹس کے سینئر ججز کو نظر انداز کرکے جونئیر ججز کو سپریم کورٹ میں لایا جارہا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جوڈیشل کمیشن کے حالیہ اجلاس میں لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس شاہد وحید پشاور ہائی کورٹ کے جج جسٹس قیصر رشید خان جب کہ سندھ ہائی کورٹ سے تین ججز، جسٹس حسن اظہر رضوی،جسٹس شفیع صدیق اور جسٹس نعمت اللہ کو سپریم کورٹ کے جج بنانے کے لیے نام پیش کیے۔ جن میں سے چار کو منتخب کیا جانا تھا۔

لیکن جسٹس فائز عیسیٰ اورجسٹس طارق مسعود کے علاوہ وزیرقانون، پاکستان بار کونسل کے نمائندے اخترحسین نے ان ناموں کو مسترد کردیا جب کہ اٹارنی جنرل کے حوالے سے چیف جسٹس نے آڈیو ریکارڈنگ کا حوالہ دیا کہ اٹارنی جنرل نے ناموں پر غور مؤخر کرنے کے لیے کہا ہے جب کہ ججز کا اصرار ہے کہ انہوں نے یہ نام مسترد کر دیے ہیں۔

ہائی کورٹ کے ججز کو سپریم کورٹ کا جج بنانے کے حوالے سے بار کونسلز کی طرف سے الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ چیف جسٹس سنیارٹی کے بجائے اپنی پسند کے ججز کو ترقی دینا چاہتے ہیں۔

اس بارے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کا نام بھی لیا جارہا ہے کہ سینئر موسٹ ہونے کے باوجود ان کا نام غور کرنے کے لیے منتخب نہیں کیا گیا۔ اس کے علاوہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا نام بھی فہرست میں شامل نہیں اور جونئیر ججز کے نام شامل کیے جارہے ہیں۔

اس حوالے سے پاکستان بار کونسل اور سینئر وکلا نے بھی سنیارٹی کے اصول کو مدنظر رکھنے کی درخواست کی ہے تاہم اب تک چیف جسٹس کی طرف سے اپنے پیش کردہ ناموں پرہی بات کی جارہی ہے۔

ججز تعیناتیوں کے حوالے سے یہ تنازعہ پہلی بار نہیں ہورہا، ماضی میں لاہور ہائی کورٹ سے جسٹس عائشہ ملک کا سنیارٹی میں چوتھا نمبر تھا لیکن انہیں سپریم کورٹ کا جج بنایا گیا۔

نومبر 2021 میں سندھ ہائی کورٹ بار کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں سنیارٹی نظر انداز کرکے سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی کو چیلنج کیا گیا ہے۔ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ سنیارٹی نظر انداز کرکے جونئیرججز کی تعیناتی عدلیہ کے لیے نقصان دہ ہے،سپریم کورٹ میں گزشتہ سات ججز میں سے 5 جونیئر جج صاحبان کو تعینات کیا گیا ہے۔

جوڈیشل کمیشن کا حالیہ اجلاس ملتوی کیا جاچکا ہے اور آئندہ اجلاس کے حوالے سے اب تک کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔