|
وزیرِ اعظم نریندر مودی کی جانب سے یوم آزادی خطاب میں مختلف مذاہب کے سول کوڈ کو کمیونل یا فرقہ پرست سول کوڈ کہنے پر ایک تنازع پیدا ہو گیا ہے۔
جہاں حزبِ اختلاف اور مسلم تنظیموں نے وزیرِ اعظم کے بیان کو تفریق آمیز قرار دے مذمت کی ہے وہیں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ان کے بیان کا دفاع کیا ہے۔
سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کانگریس کے جنرل سیکریٹری جے رام رمیش نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ جو سول کوڈ نافذ ہے وہ فرقہ پرست ہے آئین کے خالق بھیم راؤ امبیڈکر کی سخت توہین ہے۔
انھوں نے فیملی لا کی اصلاحات سے متعلق حکومت کے لا کمیشن کی مشاورتی دستاویز کا حوالہ دیا جس میں ملک کے مذہبی و ثقافتی تنوع کی ستائش کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ تنوع باعثِ مسرت ہے۔ دستاویز کے مطابق اختلافِ رائے کا مطلب تفریق نہیں بلکہ یہ ایک مضبوط جمہوریت کی نشانی ہے۔
یاد رہے کہ وزیرِ اعظم مودی نے جمعرات کو یوم آزادی کے موقع پر لال قلعے سے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ہم 75 برس سے جس سول کوڈ کو لے کر جی رہے ہیں وہ کمیونل سول کوڈ ہے۔ وہ مذہب کی بنیاد پر عوام کو بانٹتا ہے۔
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی)، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ (سی پی آئی ایم)، راشٹریہ جنتا دل اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین نے بھی وزیرِ اعظم کے بیان کی مخالفت کی ہے اور اسے بی جے پی کی نظریاتی سرپرست جماعت راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا ایجنڈا قرار دیا ہے۔
خیال رہے کہ شروع سے ہی بی جے پی کے ایجنڈے پر تین اہم ایشوز سرِفہرست رہے ہیں یعنی ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر، جموں و کشمیر سے دفعہ 370 کا خاتمہ اور یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ۔
تجزیہ کاروں کے مطابق بی جے پی نے ان میں سے اپنے دو اہم ایجنڈوں پر عمل کر لیا ہے، تیسرا ایجنڈا باقی ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ ملک میں مختلف مذاہب کے عائلی قوانین کی جگہ پر ایک یکساں قانون ہو۔ یونیفارم سول کوڈ کا مطلب ہے شادی، طلاق، وراثت، بچوں کو گود لینے اور دیگر مذہبی معاملات میں پورے ملک میں یکساں قانون نافذ ہو۔
جماعتِ اسلامی ہند سمیت کئی مسلم تنظیموں اور جماعتوں نے بھی وزیرِ اعظم کے بیان پر تنقید کی ہے اور اسے مذہب کے نام پر عوام کو تقسیم کرنے والا قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق یونیفارم سول کوڈ کا اصل نشانہ مسلمان ہیں۔ وہ ان کے مذہبی حقوق میں مداخلت ہے۔
جماعتِ اسلامی کے نائب امیر محمد سلیم انجینئر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ وزیرِ اعظم مودی اب تک نافذ سول کوڈ کو کمیونل کہہ رہے ہیں۔ ان کا یہ بیان خود اپنے آپ میں انتہائی کمینول ہے۔
انھوں نے کہا کہ دستور سازوں نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ ملک میں جو مذہبی تنوع ہے وہ متاثر نہ ہو اور تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہب پر چلنے کی آزادی ہو۔
ان کے مطابق پرسنل لاز صرف مسلمانوں کے نہیں ہیں بلکہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کے ہیں، قبائلیوں کے بھی ہیں۔ وزیرِ اعظم کا بیان کوئی نیا نہیں ہے البتہ نئے الفاظ میں پرانی بات دوہرائی گئی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس کا مقصد صرف مسلمانوں کو نشانہ بنانا ہے۔
واضح رہے کہ یہ پہلی بار ہے جب وزیرِ اعظم نے یونیفارم سول کوڈ کو سیکولر سول کوڈ قرار دیا ہے۔ بی جے پی رہنماؤں کے مطابق چوں کہ وزیرِ اعظم نے سیکولر سول کوڈ کی بات کہی ہے اس لیے اپوزیشن کو اس پر تنقید کرنے کا جواز نہیں ہے۔
ایک سینئر بی جے پی رہنما نے نیوز ویب سائٹ ’دی پرنٹ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی مسلم مخالف نہیں ہے۔ اب جب کہ وزیرِ اعظم نے سیکولر سول کوڈ کی بات کہی ہے تو اپوزیشن اس کی مخالفت کیسے کرے گی۔ کیا وہ عوام میں جا کر کہے گی کہ سیکولرازم بری چیز ہے۔
تاہم حکومت کی حلیف جماعتوں جنتا دل یونائیٹڈ (جے ڈی یو)، تیلگو دیسم (ٹی ڈی پی) اور لوک جن شکتی پارٹی (ایل جے پی) نے محتاط ردِعمل ظاہر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک مسودہ نہ دیکھ لیا جائے اس پر تبصرہ نہیں کیا جا سکتا۔
یونیفارم سول کوڈ ہے کیا؟
مبصرین کے مطابق بی جے پی جس یونیفارم سول کوڈ کی بات کرتی ہے اس کی دفعات سے دیگر مذاہب بالخصوص مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت کا راستہ کھلتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یونیفارم سول کوڈ تعدد ازواج یعنی ایک سے زائد شادی پر پابندی لگاتا ہے۔ اس میں شادی کی عمر متعین ہے۔ ہندو کوڈ بل کے مطابق مرد کی شادی کی عمر 21 سال اور عورت کی 18 سال ہے۔ جب کہ اسلام میں بلوغت کو شادی کی عمر مانا گیا ہے۔
مسودے کے مطابق اس میں قریبی رشتے داروں جیسے کہ کزن، چاچا، چاچی اور ایسے ہی دیگر رشتے داروں سے شادی ممنوع ہے جب کہ کئی ملکوں میں اس کی اجازت ہے۔ اس میں بیٹے اور بیٹی کو وراثت میں برابر کا حصہ دیا گیا ہے۔ جب کہ اسلام میں باپ کے انتقال کے بعد ترکے میں بیٹے کو دو حصہ ملتا ہے اور بیٹی کو ایک۔
مسلمانوں کے عائلی قوانین کے تحفظ کے لیے قائم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ہمیشہ سے اس کی مخالفت کرتا رہا ہے۔ اس کا استدلال ہے کہ یونیفارم سول کوڈ مسلمانوں کے مذہبی امور میں مداخلت ہے۔ متعدد قبائلی گروپ بھی اس کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔
رواں سال فروری میں ریاست اتراکھنڈ کی بی جے پی حکومت نے یونیفارم سول کوڈ کا مسودہ منظور کر کے اسے ریاست میں نافذ کر دیا ہے۔ تاہم قبائلیوں کی مخالفت کی وجہ سے ان کو اس قانون سے مستثنیٰ کر دیا گیا ہے۔
اس کی 800 صفحات پر مشتمل دستاویز میں مرد کی شادی کی عمر 21 اور عورت کی 18 سال رکھی گئی ہے۔ لیواِن رلیشن شپ میں رہنے والے جوڑوں کو اس کی اطلاع والدین کو دینا اور اس کا رجسٹریشن کرانا ضروری قرار دیا گیا ہے۔
حلالہ اور عدت پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ ایک سے زائد شادی کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ جب کہ مسلم پرسنل لا میں اس کی اجازت ہے۔ اس قانون میں طلاق دینے کا حق مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کو بھی دیا گیا ہے۔ جب کہ اسلام میں مرد طلاق دے سکتا ہے اور عورت خلا لے سکتی ہے۔
اس میں آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے بچوں کی کم سے کم تعداد پر زور دیا گیا ہے۔
اتراکھنڈ کے بعد گجرات، آسام، اترپردیش، راجستھان، ہریانہ اور مدھیہ پردیش کی بی جے پی حکومتوں نے بھی اپنے یہاں یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ پر کام کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اتراکھنڈ کے یونیفارم سول کوڈ کی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ یہ غیر مناسب، غیر ضروری اور مذہبی تنوع کے خلاف ہے۔ چوں کہ اس سے قبائلیوں کو مستثنیٰ کر دیا گیا ہے۔ لہٰذا اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس کا ہدف صرف مسلمان ہیں۔
سپریم کورٹ کے سابق جج بلبیر سنگھ چوہان کی قیادت والے حکومت کے 18 ویں لاء کمیشن نے 2018 میں اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ اس وقت ملک میں یونیفارم سول کوڈ کی نہ تو ضرورت ہے اور نہ ہی مطلوب ہے۔