|
پاکستان کے صوبۂ سندھ میں حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) مسلسل چوتھی مرتبہ اقتدار میں ہے اور صوبے میں اس کی حکمرانی کے 16 برس مکمل ہو چکے ہیں۔
اس عرصے کے دوران پیپلزپارٹی نے دو رہنماؤں کو وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر فائز کیا۔ ان میں قائم علی شاہ 2008 سے 2016 جب کہ مراد علی شاہ 2016 سے تاحال وزیرِ اعلیٰ کے منصب پر فائز ہیں۔
ناقدین پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں کرپشن اور بدانتظامی کے الزامات عائد کرتے رہے ہیں۔ تاہم پیپلز پارٹی کے رہنما ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے صوبے میں ترقی کے دعوے کرتے ہیں۔
وفاقی و صوبائی وزارتِ خزانہ کی رپورٹس کے مطابق سندھ حکومت کو 2008 سے 2023 تک 15 برسوں کے عرصے میں کم سے کم 10 ہزار ارب روپے ملے۔
اس عرصے میں سندھ حکومت کو این ایف سی ایوارڈ کے تحت وفاق کی جانب سے سات ہزار 499 ارب روپے دیے گئے اور گزشتہ 15 سالوں میں سندھ حکومت کی صوبائی ٹیکس آمدن 2600 ارب روپے تک رہی۔
اس طرح 15 برسوں میں سندھ حکومت کی کم سے کم مجموعی طور ٹیکس آمدنی اور وفاق سے این ایف سے ایوارڈ کے تحت ملنے والی رقم 10 ہزار 99 ارب بنتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ 15 برسوں میں 10 ہزار ارب سے زائد رقم خرچ ہونے کے باوجود صوبہ سندھ میں شعبہ صحت اور صوبائی ہائی ویز میں کچھ بہتری کے علاوہ کوئی خاطر خواہ ترقی اور تبدیلی دکھائی نہیں دے رہی۔
حال ہی میں جاری ہونے والی سرکاری رپورٹ میں بھی سندھ میں بنیادی سہولیات کی شدید کمی سمیت سنگین مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے۔
ماہرین کے مطابق سندھ حکومت نے اس عرصے میں غیر ترقیاتی اخراجات میں غیر معمولی اضافہ کیا اور سندھ کی مجموعی آمدن سے بنیادی ڈھانچے، انسانی وسائل کی ترقی کے لیے بہت کم رقم خرچ ہو سکی ہے۔
بعض ماہرین سندھ کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ جاگیردارانہ نظام اور کرپشن کو قرار دیتے ہیں۔
پاکستان کے ادارہ برائے شماریات کی جانب سے جولائی 2024 میں جاری کی گئی رپورٹ میں صوبہ سندھ میں مختلف سنگین مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے حیرت انگیز اعداد و شمار سامنے لائے گئے ہیں۔
یاد رہے کہ ادارہ برائے شماریات بیورو کی جانب سے یہ رپورٹ پاکستان سمیت صوبہ سندھ میں ڈور ٹو ڈور سروے کرنے کے بعد جاری کی گئی ہے جس سروے کو مکمل کرنے والے عملے میں 98 فی صد سندھ حکومت کے سرکاری ملازمین شامل تھے۔
سب سے زیادہ جھگیوں والا صوبہ
حال ہی میں پاکستان کے ادارہ برائے شماریات بیورو کی طرف سے جاری ہونے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان بھر میں گھروں سے محروم ہونے کے باعث جھگیوں/جھونپڑیوں، خیموں اور غار نما گھروں میں رہنے والے افراد میں سے 59 فی صد کا تعلق صوبۂ سندھ سے ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں مجموعی طور پر پانچ لاکھ 30 ہزار سے زائد گھر جھگیوں، جھونپڑیوں، خیموں میں قائم ہیں جن میں سب سے زیادہ تین لاکھ 13 ہزار سے زائد صرف سندھ میں ہیں۔
'چوالیس فی صد گھرانے لکڑی پر کھانا بناتے ہیں'
سرکاری رپورٹ کے مطابق پاکستان کی مجموعی گیس پیداوار میں صوبہ سندھ کا حصہ تقریباً 60 فی صد اور تیل پیداوار میں تقریباً 31 فی صد ہے لیکن صوبے میں پچاس فی صد سے زائد گھرانوں کو گیس کی سہولت میسر نہیں۔ آج بھی 44.80 فی صد یعنی 44 لاکھ 18 ہزار سے زائد گھرانے لکڑیوں پر کھانا پکاتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سندھ میں صرف 45.78 فی صد یعنی 45 لاکھ 15 ہزار گھرانوں کو واٹر سپلائی کی سہولت موجود ہے جب کہ صوبے میں مجموعی 98 لاکھ 62 ہزار سے زائد گھرانوں میں سے 70 فی صد گھرانوں کو بجلی کی سہولت دستیاب ہے۔
سرکاری رپورٹ کے مطابق صوبۂ سندھ کی مجموعی آبادی لگ بھگ پانچ کروڑ 57 لاکھ ہے جن میں پانچ سے سولہ سال عمر کی کل آبادی ایک کروڑ 68 لاکھ سے زائد ہے۔ صوبے میں 46 فی صد بچے یعنی 78 لاکھ 18 ہزار سے زیادہ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔
صوبے میں خواندگی کی شرح 57.54 فی صد ہے۔
سابق وفاقی سیکریٹری پلاننگ فضل اللہ قریشی کے مطابق گزشتہ 15 برس کے دوران سندھ کو لگ بھگ 12 ہزار ارب روپے ملے ہوں گے اور اس رقم میں سے 10 فی صد رقم بھی مشکل سے ترقیاتی کاموں پر خرچ ہوئی ہو گی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سندھ میں ترقیاتی منصوبے 10 سے 20 سالوں تک چلتے ہیں اور ان کی لاگت چار گنا بڑھ جاتی ہے۔ صوبے میں سڑکوں کی حالت خراب، ڈرینیج سسٹم ناکارہ ہے۔ محکمۂ آبپاشی کی حالت یہ ہے کہ مون سون کی معمولی بارشوں میں بھی مختلف نہروں میں شگاف پڑ گئے ہیں۔
ان کے بقول گزشتہ 20 برس کے دوران سندھ میں کوئی نئی واٹر سپلائی اسکیم نہیں آئی جب کہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بھی پینے کے پانی کی شدید کمی ہے۔
'سندھ میں صرف دو شعبوں میں ترقی ہوئی'
انہوں نے کہا کہ صوبے میں امن و امان کی صورتِ حال خراب ہے، تعلیم کا حال برا ہے جس کا اعتراف وزیرِ اعلیٰ مراد علی شاہ خود کر چکے ہیں جب کہ صوبے کی یونیورسٹیاں خسارے اور ڈرافٹ پر چل رہی ہیں۔ اسی طرح سندھ کے بیشتر ڈسٹرکٹ اسپتالوں میں مشینری آؤٹ ڈیٹیڈ ہیں۔
پاکستان کے معاشی ماہر اور این ایف سی کمیشن میں بطور رکن سندھ کام کرنے والے قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ سندھ میں 15 سالوں کے دوران دو شعبوں میں ترقی ہوئی ہے جن میں صوبائی ہائی ویز اور صحت کا شعبہ ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صوبے میں ہائی ویز پہلے سے بہتر ہوئے ہیں اور بعض سرکاری اسپتالوں میں دوائیاں بھی ملتی ہیں۔
ان کے بقول، سندھ کا بنیادی مسئلہ جاگیردارانہ اور ذات پات کا نظام ہے اور لوگ اس نظام کو اپنی قسمت سمجھ بیٹھے ہیں۔
البتہ سابق وفاقی سیکریٹری فضل اللہ قریشی کہتے ہیں سندھ میں 90 کی دہائی سے سسٹم بری طرح سے خراب ہونا شروع ہوا اور میرٹ کو نظر انداز کرنے کا ایک نیا کلچر متعارف ہوا جب کہ رشوت کے نئے طریقے سامنے لائے گئے۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی سندھ کے ترجمان عاجز دھامرہ اعتراف کرتے ہیں کہ صوبے میں امن عامہ کا مسئلہ ہے لیکن صحت اور میڈیکل و قانون کی تعلیم کے شعبوں میں کوئی بھی صوبہ سندھ کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سندھ واحد صوبہ ہے جہاں مقامی افراد سمیت دیگر صوبوں کے شہریوں کو بھی دل، کڈنی، لیور کے امراض کا مفت علاج میسر ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں صوبے میں میڈیکل یونیورسٹیوں کے علاوہ لاء یونیورسٹی بھی قائم کی ہے، اس حوالے سے بھی کوئی صوبہ سندھ کا مقابلہ نہیں کرسکتا ہے۔
عاجز دھامرہ کے مطابق تاثر دیا جاتا ہے کہ کرپشن صرف سندھ میں ہے، تو پھر دیگر صوبوں میں صحت اور دیگر شعبوں میں اتنی ترقی کیوں نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ صوبے میں گورننس اور امن و امان کا مسئلہ ہے اور کچھ اضلاع میں ڈاکوؤں کی وجہ سے یہ مسئلہ ہے لیکن بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں تو نوگو ایریاز ہیں۔
'بجلی، گیس کی فراہمی وفاقی مسئلہ ہیں'
ترجمان پیپلز پارٹی سندھ نے کہا کہ بجلی، گیس کی فراہمی اور لوڈشیڈنگ کے مسائل وفاقی حکومت کی وجہ سے ہیں مگر الزام سندھ پر لگتے ہیں اس کے باوجود صوبائی حکومت 100 سے 200 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے دو لاکھ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹرڈ خواتین کو سولر سسٹم دے رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نیشنل ہائی وے کی خستہ حالی پر بھی سندھ پر تنقید ہوتی ہے۔ جامشورو سیوھن روڈ کو خونی روڈ کہا جاتا ہے، سندھ حکومت نے اس کی بحالی کے لیے اپنے حصے کی رقم 5 سال قبل دے دی ہے مگر وفاق نے ابھی تک اپنا حصہ نہیں دیا۔
عاجز دھامرہ نے کہا کہ صوبائی حکومت نے اسلام کوٹ کا ایئرپورٹ مکمل طور پر صوبائی بجٹ سے بنایا ہے، پیپلز پارٹی نے تھرکول منصوبے پر کام شروع کیا تو ہمارا مذاق اڑایا گیا۔ مگر اب تھر کول کو پاکستان میں توانائی بحران خاص طور پر سستی بجلی کے حوالے سے اہم سمجھا جا رہا ہے۔
ان کے بقول، سندھ حکومت جھرک - ملاکاتیار دریا پر 40 کلومیٹر طویل پل بنا رہی ہے، گھوٹکی کندھ کوٹ کے مقام پر بھی دریا پر پل قائم ہونے جا رہا ہے اور یہ سب کام این ایف سی کے تحت ملنے والے حصے سے کیے جا رہے ہیں۔
ترجمان نے مزید کہا کہ خیبر پختونخوا میں بھی ایک جماعت تیسری بار حکومت میں ہے، وہاں کون سی ترقی ہوئی ہے۔ معاشی حالات کے باعث سندھ میں اسٹریٹ کرائم ہوتے ہیں مگر اسٹریٹ کرائم امریکہ اور لندن میں بھی ہیں۔
فورم