متحدہ عرب امارات میں اقوام متحدہ کے موسمیاتی مذاکرات کے آغاز کے ایک تاریخی لمحے میں، تقریباً 200 ممالک نے جمعرات کو گلوبل وارمنگ سے متاثرہ ممالک کی مدد کے لیے ایک فنڈ شروع کرنے پر اتفاق کیا۔
یہ اعلان اس وقت سامنے آیا جب سی او پی(کوپ) اٹھائیس مذاکرات کے اماراتی میزبان نے اعلان کیا کہ فاسل فیول یامعدنی ایندھن یعنی زمین سے نکالے گئے ایندھن مثلاً کوئلے، تیل اور گیس کو اگلے دو ہفتوں میں طے پانے والے کسی بھی موسمیاتی معاہدے کا حصہ ہونا چاہیے۔
دبئی میں ہونے والی بات چیت کرہ ارض کے لیے ایک ایسے اہم لمحے پر ہوئی،جب گیسوں کے اخراج میں اب بھی اضافہ ہو رہا ہے اور اقوام متحدہ نے جمعرات کو 2023 کے سال کو انسانی تاریخ کا گرم ترین سال قراردینےکا اعلان کیا
SEE ALSO: دبئی میں ماحولیاتی تبدیلی پر عالمی کانفرنس: پاکستان کی توقعات کیا ہیں؟اس "لاس انیڈ ڈیمیج" نامی فنڈ کے باضابطہ قیام کے لئے طویل عرصے سے موسمیاتی خطرات سے دوچار ممالک کی طرف سے کوششیں ہو رہی تھیں جس نے کوپ اٹھائیس میں ابتدائی کامیابی حاصل کی، جہاں معدنی ایندھن کے مرحلہ وار ختم ہونے پر شدید تقسیم فوری طور پر واضح تھی۔
اور ایسے میں جب مندوبین گلے مل رہے تھے اور خوشی کا اظہار کر رہے تھے COP28 کے صدر سلطان الجابر نے کہا کہ ہم نے آج تاریخ رقم کی ہے۔
جابر نے کہا کہ "یہ پہلی بار تھا کہ کسی بھی ایسی کانفرنس کے پہلے دن کوئی فیصلہ کیا گیا ہے وہ بھی منفرد، غیر معمولی اور تاریخی ہے۔
اور انہوں نے کہا کہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم ڈیلیور کر سکتے ہیں۔ COP28 ڈیلیور کر سکتا ہے اور کرے گا۔
SEE ALSO: بائیڈن سمیت متعدد رہنما ماحولیات پر عالمی اجلاس سے غیر حاضر کیوں؟رہنماؤں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ صاف توانائی کے مستقبل کی طرف تیزی سے آگے بڑھیں اور گیسوں کے اخراج میں بڑی کمی کریں، عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو طے شدہ سطح سے نیچے رکھنے کے لیے دنیا کی راہ کو تبدیل کریں۔
COP28 کی توجہ اس پر مرکوز رہے گی کہ گلوبل وارمنگ کو روکنے کے لیے دنیا کی پیش رفت محدود کیوں رہی اور اس بارے میں سرکاری رد عمل کی ضرورت کا جائزہ لیا جائے گا۔
پچھلے سال کی COP27 کے مقابلے میں یہ کانفرنس دو گنی بڑی ہے۔اس کانفرنس کو اب تک کی سب سے بڑی کانفرنس قرار دیا گیا ہے جس میں 97,000 افراد شریک ہونگے جن میں برطانیہ کے بادشاہ چارلس III اور تقریباً 180 دیگر سربراہان مملکت و حکومت کی شرکت متوقع ہے۔
اقوام متحدہ اور یو اے ای کے میزبانوں کا کہنا ہے کہ یہ مذاکرات 2015 میں پیرس کے بعد سے سب سے اہم ہوں گے، اور غریب ممالک کے لیے موسمیاتی مالیات ، ایجنڈے کااہم آئٹم ہے۔
SEE ALSO: سی او پی 28 اجلاس: کیا جوہری توانائی کے پر امن استعمال پر بھی بات ہوگی؟متحدہ عرب امارات اپنے آپ کو ان امیر ترقی یافتہ ممالک جو تاریخی اخراج کے لیے زیادہ تر ذمہ دار ہیں اوراس باقی دنیا کے درمیان ایک پل کے طور پر دیکھتا ہے جو گلوبل وارمنگ کی سب سے کم ذمہ دار ہے لیکن جو بدترین نتائج بھگت رہی ہے۔
متحدہ عرب امارات نے اس فنڈ کے لئے ایک سو ملین ڈالر دینے کا اعلان کیا جبکہ یورپی یونین دو سو چھیالیس ملین ڈالر دے گی۔
آنے والے دنوں میں مزید وعدے متوقع ہیں، لیکن یہ رقم 100 بلین ڈالر کی اس رقم سے کہیں کم ہے جسکی ترقی پذیر قوموں کے بقول انہیں ضرورت ہے۔
SEE ALSO: دبئی میں ماحولیاتی تبدیلی پر عالمی کانفرنس: پاکستان کی توقعات کیا ہیں؟چھیالیس سب سے کم ترقی یافتہ ممالک کے گروپ کی سربراہ میڈلین ڈیوف سار نےخبردار کیا کہ ہم نے"لاس انیڈ ڈیمیج"نامی فنڈ کے قیام میں جو پیش رفت کی ہے وہ آب و ہوا کے انصاف کے لیے بہت اہم ہے، لیکن خالی ایک فنڈ ہمارے لوگوں کی مدد نہیں کر سکتا۔
ممالک، 30 نومبر سے 12 دسمبر کے درمیان بہت سے نازک مسائل پر بات کریں گے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اعتماد پیدا کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہو سکتا ہے۔
کانفرنس کے آغاز پر مندوبین نے غزہ کی لڑائی میں ہلاک ہونے والے شہریوں کے لیے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی۔
اسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ کے دفتر نے بتایا کہ وہ کانفرنس سے باہر سفارت کاروں کےساتھ، حماس کے ہاتھوں بنائے گئے یرغمالوں کی رہائی پر بات چیت کریں گے۔
نہ تو امریکی صدر جو بائیڈن اور نہ ہی چینی صدر شی جن پنگ شرکت کر رہے ہیں، تاہم واشنگٹن، نائب صدر کاملا ہیرس کو بھیج رہا ہے۔
لیکن امریکہ اور چین نے، جو آلودگی پھیلانے والے دنیا کے دو سب سے بڑے ملک ہیں، اس ماہ آب و ہوا کے بارے میں ایک غیر معمولی مشترکہ اعلان کیا جس نے کوپ اٹھائیس کے آغاز سے پہلےامید کو فروغ دیا۔