کرونا وائرس: بھارت میں مسلمانوں کو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے؟

  • مدثرہ منظر

دہلی میں تبلیغی جماعت کے ارکان کو قرنطینہ مرکز میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ 31 مارچ 2020

کرونا وائرس کی وبا نے دنیا بھر میں اجتماعی عبادت کو سخت دھچکہ پہنچایا ہے۔ خواہ کیتھیڈرل ہو، سیناگاگ یا مساجد۔ کہیں بھی لوگ جمع ہو کر عبادت نہیں کر سکتے۔ اور اگر جمع ہو بھی جائیں تو سوشل ڈسٹینسنگ یا معاشرتی فاصلے کی شرط پوری کرتے ہوئے یعنی ایک دوسرے سے چھ فٹ کے فاصلے سے عبادت کرتے ہوئے یقیناً اجتماعیت کا احساس پھیکا پڑ جاتا ہے۔

اسی احساس کے دوران مسلمانوں کیلئے عبادت کا سب سے بڑا مہینہ رمضان بھی شروع ہو گیا ہے۔ اس مرتبہ یہ مہینہ کرونا وائرس کی وبا کے دوران آیا ہے۔ اور کوویڈ 19 کے واضح اثرات اسے متاثر کرتے نظر آ رہے ہیں۔ سب سے پہلے تو نماز تراویح کا اہتمام متاثر ہوا ہے۔ اور کم از کم امریکہ میں تو کسی مسجد میں تراویح کا انتظام نہیں کیا گیا۔

Your browser doesn’t support HTML5

کرونا وائرس اور قربانی کا بکرا

ڈاکٹر زاہد بخاری سینٹر فار اسلام اینڈ پبلک پالیسی کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں اس مرتبہ عبادت کا مرکز گھر ہی قرار پایا ہے اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے علماء کرام اپنے خطبے سوشل میڈیا پر دے رہے ہیں۔

رمضان کے دوران اور حتیٰ کہ اس کی آمد سے پہلے ہی خاص خریداری کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ مگر خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق اس مرتبہ رمضان کے دوران مشرقِ وسطیٰ میں رات بھر کھلی رہنے والی دوکانیں سنسان پڑی ہیں کیونکہ لوگ کرونا وائرس کی وجہ سے گھروں سے نہیں نکل سکتے۔

مسلم اکثریت والے ممالک میں لاک ڈاؤن کے باوجود رمضان کا احساس فضا میں موجود رہتا ہے مگر ایسے ممالک میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، وہاں وہ بڑھ چڑھ کر یک جہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ البتہ کرونا وائرس کے ان دنوں میں ملکی قوانین کا احترام بھی لازم ہے اور امریکہ میں مقیم مسلمان بھی پوری طرح نظم و ضبط کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

رمضان کی آمد کے موقع پر امریکی صدر ڈولڈ ٹرمپ اور وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے اپنے پیغامات میں مسلمانوں کے اس انتہائی مقدس مہینے کی اہمیت کو پیشِ نظر رکھا اور خیر سگالی کے جذبات کا اظہار کیا۔

امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے ایک ٹوئٹ کے ذریعے اپنے پیغام میں دنیا بھر کی حکومتوں سے اپیل کی کہ اس مرتبہ کرونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے اس مہینے کے معمولات میں پہلے ہی بہت ترامیم کی جا چکی ہیں اور کووہڈ 19 کے پھیلنے کے ساتھ ہی مسلمانوں سمیت بہت سے مذہبی گروپوں کو سکیپ گوٹ یا قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ تمام حکومتوں اور کمیونیٹیز پر زور دیتے ہیں کہ وہ اس موقع پر جب کہ ہم کوویڈ 19 سے نبرد آزما ہیں، خدمت اور یک جہتی پر توجہ مرکوز کریں اور ان لوگوں کی صحت اور تحفظ کو ذہن میں رکھیں جو سب سے زیادہ خطرے میں ہیں اور جنہیں معاشرے میں کمتر مقام حاصل ہے۔

ڈاکٹر زاہد بخاری کہتے ہیں کہ امریکی وزیرِ خارجہ غالباً ان ملکوں کی جانب اشارہ کر رہے ہیں جہاں بعض مذہبی گروپوں کو کرونا وائرس پھیلانے کا ذمے دار سمجھا گیا۔

اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق یہ ایک قدیم سلسلہ ہے کہ کسی بھی مصیبت کا الزام ان لوگوں کو دیا جائے جو خود سے مختلف ہوں۔ چنانچہ بھارت میں کرونا وائرس پھیلانے کا الزام مسلمانوں کو دیا گیا جو وہاں اقلیت میں ہیں جب کہ یہ آبادی کرونا وائرس پھیلنے سے پہلے ہی سخت خطرے میں تھی۔

دہلی یونیورسٹی میں ہندی کے پروفیسر اور تجزیہ کار پروفیسر اپور وانند کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو سکیپ گوٹ بنانے کا سلسلہ پچھلے چار ماہ سے چل رہا ہے جب بھارت کے مسلمان شہریت کے ایک قانون سی اے اے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔

وہ کہتے ہیں اس احتجاج کے دوران مسلمانوں پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ ملک کے خلاف کام کر رہے ہیں، ملک کو توڑ رہے ہیں۔ اور اس وقت اس میں شدت آ گئی جب دلّی اسمبلی کا الیکشن ہوا اور الزام لگانے والوں میں حکمراں جماعت کے عہدیدار بھی شامل ہو گئے۔

وہ کہتے ہیں ٹھیک اسی دوران کرونا وائرس کے پھیلنے کی بھی بات شروع ہوئی۔ پروفیسر اپوروانند کہتے ہیں کہ اسی دوران مسلمانوں کی تبلیغی جماعت کا ایک اجتماع ہوا اور اس میں کوویڈ 19 کے کچھ کیسز سامنے آئے۔ اور یوں موقع مل گیا یہ کہنے کا کہ دیکھیں مسلمان کرونا وائرس پھیلانے کی سازش کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں مسلمانوں کے خلاف ایک پر تشدد مہم پچھلے چھ سال سے چل رہی ہے اور اسی سے کرونا وائرس کا سلسلہ بھی جوڑ دیا گیا ہے۔ میڈیا پر بھی یہ سلسلہ چلا ہے مگر حکمراں جماعت یا انتظامیہ کی جانب سے اسے روکنے کیلئے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق بھارت میں تبلیغی جماعت کے اجتماع اور ان پر الزام تراشی کے ایک ماہ بعد بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے ٹویٹر پر اتحاد کی ایک اپیل کی کہ کوویڈ 19 نسل، مذہب، رنگ زبان یا سرحد نہیں دیکھتا، ہم سب اس میں ایک ساتھ ہیں۔

پروفیسر اپوروانند کہتے ہیں کہ یہ بات یقیناً اہمیت رکھتی ہے کہ امریکہ کو اقلیتوں کی مشکلات کا احساس ہے اور پومپیو نے کم از کم یہ کہا تو صحیح کہ کسی کو قربانی کا بکرا نہ بنایا جائے۔