پاکستان کے معاون خصوصی برائے صحت کے مطابق ملک میں کرونا وائرس کے مصدقہ مریضوں کی تعداد 94 ہو چکی ہے تاہم صوبوں کی جانب سے جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق یہ تعداد 130 سے زائد ہے۔
وفاق اور صوبوں کی سطح پر کرونا وائرس کے مصدقہ افراد کی تعداد کے حوالے سے اعداد و شمار کا فقدان دکھائی دیتا ہے۔
معاون خصوصی صحت سے جب یہ سوال پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ اس وقت (پیر کی رات) تک مصدقہ مریضوں کی تعداد 94 ہے اور یہ اعداد و شمار تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے متاثرہ افراد کے میڈیکل ٹیسٹ کے نتائج آ رہے ہوتے ہیں اور بعض کی دوبارہ تصدیق ہونا باقی ہوتی ہے۔
نیشنل کوآرڈینیشن کمیٹی کے وزیر اعظم کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس کے بعد معاون خصوصی برائے صحت جس وقت میڈیا کو کرونا وائرس کے تازہ اعداد و شمار سے آگاہ کر رہے تھے، عین اسی وقت خیبر پختونخوا کے صوبائی وزیر صحت نے ٹوئٹ کے ذریعے بتایا کہ صوبے میں 15 افراد میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے مطابق ان کے صوبے میں کرونا کے مریضوں کی تعداد 104 ہو گئی ہے جن میں سکھر میں 76، کراچی میں 27 اور حیدرآباد میں ایک کیس رپورٹ ہوا ہے۔
صوبوں کی طرف سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق سندھ میں 104، خیبر پختونخوا میں 15، بلوچستان میں 10، گلگت بلتستان میں پانچ، پنجاب میں ایک، جب کہ اسلام آباد میں چار افراد کے اس وبا سے متاثر ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔
وفاق کی طرف سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق 94 مصدقہ متاثرہ افراد میں سے سندھ میں 65، بلوچستان میں 10، اسلام آباد میں چار، گلگت بلتستان میں تین، پنجاب میں ایک، جب کہ خیبر پختونخوا میں کرونا وائرس سے کسی کے متاثر ہونے کی اطلاع نہیں ہے۔
پاکستان میں کرونا وائرس کا پہلا کیس 26 فروری 2020 کو کراچی میں سامنے آیا تھا جس کے بعد کسی ایک دن میں اس وبا سے متاثرہ افراد کی تعداد میں ہونے والا یہ سب سے زیادہ اضافہ ہے۔
حکومت کے حفاظتی اقدامات پر سوال اٹھ گئے؟
حکومت کی جانب سے ایران سے آنے والے افراد کو بارڈر پر 14 دن قرنطینہ رکھنے کے باوجود سندھ میں پہنچنے کے بعد ان کے کرونا وائرس کے ٹیسٹ مثبت آئے ہیں جس نے وفاقی حکومت کے اس وبا سے نمٹنے کے اقدامات پر سوالات اٹھا دیئے ہیں۔
صوبہ سندھ کے ترجمان مرتضی وہاب نے کہا ہے کہ ان کی حکومت پاک ایران سرحد تفتان پر قرنطینہ کے انتظامات سے مطمئن نہیں تھی، اس لیے صوبے میں لوٹنے والے 110 زائرین کے دوبارہ ٹیسٹ لیے تھے جن میں سے 50 مثبت آئے ہیں۔
وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ نے بھی کہا ہے کہ تفتان پر جس طرح زائرین کو رکھا گیا، وہ قرنطینہ نہیں تھا اور وفاقی حکومت کی جانب سے مشتبہ افراد کو قرنطینہ میں رکھنے کے باوجود ان کے ٹیسٹ مثبت آنا تشویشناک صورت حال ہے۔
وزیر اعظم کے معاون خصوصی سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ تفتان بارڈر پر وفاقی حکومت کے قرنطینہ کےانتظامات تسلی بخش نہیں تھے۔
انہوں نے کہا کہ ایران سے لوٹنے والوں کو قرنطینہ میں رکھنے کے لئے تفتان مناسب جگہ نہیں تھی اور یہ سندھ حکومت کا یہ اقدام مناسب ہے کہ ان افراد کو گھر جانے کی اجازت دینے سے پہلے ان کے دوبارہ ٹیسٹ لئے گئے۔
تاہم ظفر مرزا نے کہا کہ ان اعداد و شمار سے ہمیں گھبرانا نہیں چاہیے، بلکہ ان کا دوسرے ملکوں سے تقابل کرنا چاہیے کیونکہ وہاں زیادہ تر لوگ صحت یاب ہو رہے ہیں۔
سندھ حکومت اس سے قبل بھی کرونا وائرس سے متعلق وفاقی حکومت کے اقدامات اور صوبوں سے ہم آہنگی کے معاملے کو ناکافی قرار دے چکی ہے۔
خیال رہے کہ سرکاری اعداد و شار کے مطابق پاکستان مین تاحال کرونا وائرس سے کوئی ہلاکت نہیں ہوئی ہے۔