محکمہ امیگریشن کے 13000 سے زائد ملازمین کو فرلو کے نوٹس جاری

  • مدثرہ منظر

فائل

امریکہ میں ترکِ وطن کے ادارے یونائیٹڈ اسٹیٹس سٹیزن اینڈ امیگریشن سروسز کے 13 ہزار سے زیادہ ملازمین کو فرلو کےنوٹس جاری کر دیے گئے ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

کرونا کی وبا کے امریکی ترک وطن پرگرام پر اثرات

یو ایس سی آئی ایس کے ملازمین کے فرلو کا اطلاق تین اگست سے ہوگا۔ خبروں کے مطابق 13400 ملازمین کے کام نہ کرنے سے امریکہ میں امیگریشن کا کام تقریباً رک جائے گا۔

سلیم رضوی امریکی سپریم کورٹ کے اٹارنی ایٹ لا ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک ایسا اقدام ہے جس کی اس سے پہلے مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اتنی بڑی تعداد میں ملازمین کے کام نہ کرنے سے امیگریشن کیلئے درخواستیں داخل کرنے کا عمل رک جائے گا اور اگر صرف اعلیٰ افسران ہی دفتر میں موجود رہے تو ان کے سامنے کام کون پہنچائے گا۔ چنانچہ خطرہ ہے کہ یہ عمل مکمل طور پر تعطل کا شکار ہو جائے گا۔

اٹارنی سلیم رضوی

رپورٹ کے مطابق امیگریشن کے اس محکمے میں کل 20 ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ اور ان کا کل سالانہ بجٹ 15 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ یہ تمام رقم ان درخواستوں سے آتی ہے جو امریکہ میں امیگریشن کیلئے داخل کی جاتی ہیں جن میں ویزے، ورک پرمٹ اور گرین کارڈ سے لے کر امریکی شہریت کیلئے درخواستیں شامل ہیں۔

کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے ان درخواستوں میں پچاس فیصد کمی آگئی ہے چنانچہ یو ایس سی آئی ایس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ مارچ کے مہینے سے ان رقوم میں ڈرامائی کمی آئی ہے اور اگر کانگریس تین اگست سے پہلے کوئی اضافی رقم نہیں دیتی تو محکمے کیلئے پورے سٹاف کے ساتھ کام کرنا ممکن نہیں ہے، چنانچہ ملازمین کو فرلو کرنا ضروری ہو گیا ہے۔

سلیم رضوی کہتے ہیں کہ اول تو یہ طریقہ ہی غیر یقینی ہے کہ محض درخواستوں کی رقم سے کوئی محکمہ چلایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ حال ہی میں ان درخواستوں کی فیس کی رقم بڑھائی بھی گئی ہے مگر یہ سلسلہ رک گیا تو اس محکمے کا ریونیو بھی رک جائے گا۔

مگر وائس نیوز کی اس رپورٹ کے مطابق ملازمین کا کہنا ہے کہ پورا سچ یہ نہیں ہے بلکہ صدر ٹرمپ ویزا کی مختلف قسموں کو منسوخ کرتے آرہے ہیں جیسا کہ ایچ ون یا جے ون ویزا اور گرین کارڈ کی درخواستیں وغیرہ تو ان کی فیس بھی نہیں آرہی۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف ایچ ون ویزا ہی کی مد میں کمپنیاں ہزاروں ڈالر فیس ادا کرتی ہیں۔

امریکی سپریم کورٹ کے اٹارنی ایٹ لا سلیم رضوی کہتے ہیں اس سے ایک اور شعبہ بھی متاثر ہو گا اور وہ ہیں امیگریشن ججز جن کے سامنے ڈیپورٹیشن کے کیسز ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان پر بھی زد پڑ سکتی ہے اور جن لوگوں نے کسی رشتے کی بنیاد پر اپنے عزیزوں کیلئے امیگرینٹ ویزے کی درخواست دے رکھی ہے ان کا معاملہ بھی کھٹائی میں پڑ سکتاہے۔

گرچہ محکمانہ طور پر ملازمین کو یو ایس سی آئی ایس کی جانب سے تیس دن کا نوٹس دیا گیا ہے تاکہ وہ اپنا کوئی انتظام کرلیں مگر سلیم رضوی کہتے ہیں یہ تو ایک معمول کی کاروائی ہے اور تیس روز کا نوٹس دینا ضروری تھا۔ مگر اصل بات یہ ہے کہ اس طرح کی کاروائیوں میں سیاست کا بھی عمل دخل ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان تیس دنوں میں اگر وائٹ ہاؤس چاہے تو کانگریس کے ساتھ مل کر کوئی راستہ نکال سکتا ہے مگر اس کی امید نظر نہیں آتی، کیونکہ صدر ٹرمپ کی گزشتہ انتخابی مہم کی طرح اب بھی ان کی پالیسیاں تارکینِ وطن کے حق میں نہیں ہیں۔

ایم جے خان ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں سابق کونسل ممبر اور ریپبلکن پارٹی کے حامی ہیں۔ وہ کہتے ہیں اس بات میں صداقت ہو سکتی ہے کہ اس طرح کے فیصلے سیاست کی بنیاد پر کئے جا رہے ہوں، کیونکہ الیکشن کا سال ہے اور صدر ٹرمپ کو اپنے حامیوں کو باور کرانا ہے کہ وہ امریکیوں کی ملازمتوں کیلئے فکر مند ہیں۔ اور جب تک الیکشن نہیں ہو جاتے اس طرح کے فیصلے سامنے آتے رہیں گے مگر یہ وقتی ہیں اور بعد میں سب تبدیل ہو جائے گا۔

سلیم رضوی نے کہا کہ الیکشن کے اس سال میں یہ لوگوں کو ووٹ کے حق سے محروم رکھنے کی بھی ایک کوشش ہو سکتی ہے، کیونکہ یوایس سی آئی ایس میں کام رکنے کا مطلب ہے کہ ان لوگوں کو بھی نہیں بلایا جائے گا جنہیں امریکی شہریت ملنے والی تھی اور وہ نومبر میں ووٹ دینے کے اہل تھے۔ ان کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کو خطرہ ہے کہ یہ امیگرینٹ ڈیموکریٹس کو ووٹ دیں گے۔

ایم جے خان نے کہا کہ ہو سکتا ہے ٹرمپ انتظامیہ کو یہ خدشہ ہو چونکہ ٹرمپ کا خیال ہے کہ تارکینِ وطن جب امریکی شہریت حاصل کر لیتے ہیں تو ڈیموکریٹک پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ دونوں ہی پارٹیوں کو کوشش کرنا ہو گی۔ نہ تو ریپبلکنز کو یہ چاہئے کہ وہ امیگرینٹس کو خود سے بالکل ہی دور کر دیں اور نہ ہی ڈیموکریٹس یہ خیال کریں کہ کچھ بھی ہو امیگرینٹس کے ووٹ تو انہیں کو ملیں گے۔

وائس نیوز کی رپورٹ کے مطابق مئی کے مہینے میں یو ایس آئی سی ایس نے کانگریس سے ایک اعشاریہ دو ارب ڈالر کیش کی درخواست کی تھی تاکہ محکمے کا کام جاری رہ سکے اور محکمے کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اگر یہ رقم مل گئی تو اسے دس فیصد سرچارج کے ساتھ لوٹانا ہو گا اور ظاہر ہے یہ سرچارج درخواستوں کی رقم بڑھا کر ہی پورا کیا جائے گا۔