رسائی کے لنکس

'تارکینِ وطن کو نئے گرین کارڈ جاری نہیں کیے جائیں گے'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

کرونا وائرس کی وبا کے ان دنوں میں، جبکہ دنیا بھر کی طرح امریکہ میں پچانوے فیصد لوگ گھروں میں بند ہو کر رہ گئے ہیں، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تارکینِ وطن کیلئے بھی امریکہ میں داخلے کے مواقع پر روک لگانے کے احکامات جاری کیے ہیں۔

بدھ کی شام ایک اگزیکیٹو آرڈر کے ذریعے انہوں نے واضح کیا کہ قانونی طور پر امریکہ آنے والے تارکینِ وطن کو نئے گرین کارڈ جاری نہیں کئے جائیں گے اور یہ پابندی ساٹھ روز تک برقرار رہے گی۔

دریں اثنا، شہریت اور امیگریشن سے متعلق امریکی محکمے نے جمعے کے روز ایک بیان میں کہا ہے کہ ''کرونا وائرس کے پھیلائو سے بچنے کے لیے ادارے سے منسلک تمام دفاتر عارضی طور پر بند ہیں۔ توقع کی جاتی ہے کہ یہ دفاتر چار جون کو دوبارہ کھل جائیں گے''۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ''اس وقت یہ دفاتر بند ہیں۔ تاہم، ان دفاتر کے ملازمین انتہائی ضروری کام انجام دے رہے ہیں، جن کاموں میں عام لوگوں سے بالمشافہ واسطہ نہیں پڑتا''۔

تارکین وطن کو نئے گرین کارڈ جاری نہیں کئے جائیں گے۔
please wait

No media source currently available

0:00 0:06:35 0:00

اس حکم نامے سے ملک کے اندر یا امریکہ سے باہر گرین کارڈ کی درخواست دینے والے متاثر ہوں گے۔ مگرحکم نامے کے مطابق قانونی طور پر امریکہ آنے کیلئے عارضی ویزوں پر کوئی پابندی نہیں ہو گی۔

اس صدارتی حکم نامے کی وضاحت کرتے ہوئے پاک امریکن لائرز فار سول اینڈ لیگل رائٹس کے صدر، اٹارنی رمضان رانا کہتے ہیں کہ بظاہر اس حکم نامے سے ظاہر ہوتا ہے کہ گرین کارڈ کیلئے نئی درخواستیں نہیں لی جائیں گی۔ لیکن، جو کیس پہلے سے درج ہیں اور عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں ان کا فیصلہ عدالتوں کو کرنا ہے اور یہ حکم نامہ عدالتوں پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔

ورجینیا میں مقیم اعصام چوہدری کینیڈا سے امریکہ آئے ہیں۔ شادی کے بعد ان کی بیوی نے انہیں سپانسر کیا اور انہیں گرین کارڈ مل گیا جو کہ پانچ سال بعد ختم ہوگیا اور اسے دوبارہ حاصل کرنے کیلئے انہوں نے درخواست دے رکھی ہے۔

معمول کی کارروائی کے مطابق، انہیں یہ کارڈ مدت ختم ہونے سے پہلے ہی مل جاتا مگر ایک تو لاک ڈاؤن سے تمام دفاتر کی طرح امیگریشن کا کام بھی متاثر ہوا ہے اور اب اس نئے صدارتی حکم نامے نے ان کے خدشات میں اضافہ کر دیا ہے کہ نہ جانے کیا فیصلہ ہو، کتنا وقت لگے اور پھر ایسا نہ ہو کہ گرین کارڈ کی عدم موجودگی میں ان کی ملازمت بھی جاتی رہے۔

اس بارے میں ہم نے نیویارک کے ماہرِ قانون اور ٹی وی ون یو ایس اے کے ایمگریشن قوانین سے متعلق ایک لائیو شو کے میزبان، اٹارنی سلیم رضوی سے سوال کیا تو انہوں نے بتایا کہ جن لوگوں کے گرین کارڈ کے معاملات پہلے ہی پراسیس میں ہیں انہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ان پر اثر نہیں پڑے گا۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ لوگ جو ملک سے باہر ہیں اور انہیں امیگرینٹ ویزہ دے دیا گیا تھا مگر انہوں نے ابھی سفر نہیں کیا، ان پر اس کا اطلاق ہوگا اور وہ امریکہ ابھی نہیں آسکیں گے۔

رانا رمضان کہتے ہیں کہ امیگریشن کسی کا حق نہیں ہوتا۔ یہ اس ملک کی صوابدید ہے کہ وہ کسی کو اپنے ملک میں رہنے کی اجازت دے یا نہ دے۔ تاہم، انھوں نے کہا کہ ''انسانی حقوق تو ہر انسان کے ہیں خواہ وہ غیر قانونی طور پر ہی اس ملک میں کیوں نہ آیا ہو''۔

ان کا کہنا تھا کہ جب کوئی گرین کارڈ کی درخواست دیتا ہے تو ملازمت کرنے کی اجازت بھی طلب کرتا ہے، چنانچہ ضروری نہیں کہ جس کے پاس گرین کارڈ نہیں ہے وہ ملازمت بھی نہیں کر رہا۔

سلیم رضوی نے کہا ہے کہ اس صدارتی حکم نامے میں بہت سے لوگوں کو استثنیٰ بھی حاصل ہے۔ مثلاً وہ لوگ جن کے پاس امیگرینٹ ویزہ ہے یا سفر کی دیگر دستاویزات ہیں، وہ نرسیں، ڈاکٹر یا طبی ماہرین جو کرونا وائرس سے بچاؤ کی امریکی تحقیق میں حصہ لینا چاہتے ہیں، وہ لوگ جو قانونی طور پر امریکہ میں مقیم ہیں یا جن کی رفیقِ حیات امریکی شہری ہیں، یا کسی امریکی کے وہ بچے جو اکیس برس سے کم عمر ہیں۔ یا پھر وہ لوگ جنہیں ان کے ملک میں جان کا خطرہ ہے یا جبر و ستم کا سامنا ہے اور وہ امریکہ میں پناہ لینا چاہتے ہیں۔

صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ حکم اس لئے جاری کیا ہے، تاکہ امریکیوں کو ملازمتوں کے حصول کیلئے بین الاقوامی ورک فورس کے ساتھ مقابلہ نہ کرنا پڑے۔

امریکی سپریم کورٹ کے وکیل، سلیم رضوی کہتے ہیں کہ امریکہ میں ملازمتیں کرونا وائرس کی وبا میں لاک ڈاؤن کے باعث گئی ہیں، تارکینِ وطن کا اس میں کوئی دخل نہیں۔

رانا رمضان بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ہو سکتا ہے صدر صرف اپنے حامیوں کو خوش کرنے کیلئے ایسا کہہ رہے ہوں۔

کرونا وائرس سے اس وقت امریکہ میں بیروزگاروں کی تعداد دو کروڑ ساٹھ لاکھ تک پہنچ گئی ہے اور بظاہر صدر ٹرمپ کا یہ فیصلہ وسیع تر امریکی مفاد میں نظر آتا ہے۔ تاہم، ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ امیگریشن کے بیشتر دفاتر میں کرونا وائرس کی وبا کے باعث کام پہلے ہی بند ہے اس لئے اس حکمنامے سے امریکیوں کو فوری طور پر کوئی فائدہ پہنچے اس کا امکان کم ہی ہے۔

XS
SM
MD
LG