عید میلاد النبی کے موقع پر ملک بھر میں انتہائی بڑے پیمانے پر چراغاں ہوا، جِس پر، کروڑوں روپے کی بجلی خرچ ہوئی۔ اِس بارے میں، چند خیالات۔
ٓپاکستان میں منگل کو جشن عیدمیلاد النبی اختتام پذیر ہوا۔اس کے ساتھ ہی نئے مہینے کا چاند دیکھ کر شروع ہونے والی 12روزہ تقریبات بھی ختم ہوگئیں۔ معاشی لحاظ سے دیکھیں تو ’منگل‘ سال کا سب سے زیادہ خرچے والا دن تھا۔ اس ’مہنگے ترین دن‘ کا سب سے ’مہنگا‘ پہلو ملک بھر میں جگہ جگہ ہونے والا ’چراغاں‘ تھا۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق، اوسطاً 7سے 10دنوں تک بے شمار عمارتوں پر کروڑوں بلب روشن رہے۔ انگنت مکانات، مساجد، باغات، میدان، گلیاں اور سڑکیں ایسی تھیں جو ساری ساری رات انتہائی تیز روشنیوں میں نہاتی رہیں۔ گویا، روشنیوں کی نا رکنے والی ’موسلا دھار بارش‘ تھی جس سے ملک کا گوشہ گوشہ تربتر ہوگیا۔
کیا چراغاں بے دریغ اور غیر متوازن تھا۔۔؟
زمینی حقائق کا جائزہ لیں تو یہ تلخ حقیقت آشکارہ ہوتی ہے کہ پاکستان جیسا ملک جہاں توانائی کا سخت بحران ہو، لوڈشیڈنگ سے انگنت فیکٹریاں، کارخانے، صنعتیں اور درجنوں کاروبار تباہ ہوگئے ہوں، جہاں لوڈ شیڈنگ اور بجلی کی بلاتعطل فراہمی کے وعدے انتخابی منشور کا حصہ ہوں، جہاں وزیراعظم اس مسئلے پر عدالتی کٹہروں میں طلب کرلئے جاتے ہوں، کیا واقعی وہاں اس قدر بے دریغ چراغاں درست ہے؟
ایک دینی تنظیم ’اہل سنت و الجماعت‘ کے عہدیدار، حافظ جنید خان کا نظریہ یہ ہے کہ ’چراغاں کے منتظمین اسے پیمبر اسلام سے عقیدت اور محبت کے اظہار کا ذریعہ کہتے ہیں۔ لیکن، اظہار محبت کے وقت اگر ملکی حالات اور توانائی کے بحران کو بھی مد نظر رکھ لیا جاتا، تو بہتر تھا۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ ایک دن میں اتنی بجلی خرچ ہوگئی جتنی شاید پورے سال بھی خرچ نہیں ہوتی۔‘
ایک اور عالمِ دین، علامہ مولانا حافظ احمد، جن کا تعلق مدرسہ بنوری ٹاوٴن کراچی سے ہے، بات چیت میں، اُنہوں نے بھی اِسی بات پر زور دیا کہ اسلام میانہ روی کا درس دیتا ہے۔ اُن کے الفاظ میں، ’کل جو چراغاں ہوا سو ہوا آج دوسرے دن بھی بیشتر علاقوں کا یہی حال ہے کہ وہاں آج بھی چراغاں کیا جارہا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ سردی کے باوجود ملک بھر میں ہر روز کئی کئی گھنٹے لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔ لیکن، منگل کو لوڈ شیڈنگ بھی کہیں نہیں ہوئی۔ یعنی، جو چند گھنٹے بجلی بچ سکتی تھی وہ بھی نہیں بچ سکی۔‘
سوچ کے نظریئے:
پاکستان میں عید میلاد النبی کو جوش و خروش سے منانے کا سلسلہ مختلف دینی جماعتوں کے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے سبب زیادہ پروان چڑھا ہے۔ یہ جماعتیں اپنے اپنے مسلک کے تحت اسے منانے یا نہ منانے کے نظریئے کی حامی ہیں۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے عالم دین شاہ تراب الحق، مولانا انس نورانی اور ثروت اعجاز قادری کا کہنا ہے کہ ’پیغمبر اسلام جیسی عظیم ترین ہستی کے یوم پیدائش پر جشن منانا اچھی روایت ہے۔ یہ ان سے محبت کا ذریعہٴاظہار ہے۔ جب گھر کے کسی فرد کی خوشی کے موقع پر خرچ کا خیال نہیں رکھا جاتا، تو پھر بھلا عید میلاد پر ہی ایسا کیوں۔ اس عظیم ترین ہستی کے مقابلے میں بجلی کا خرچ کیا معنی رکھتا ہے۔‘
چوری کی بجلی
پاکستان میں بجلی چوری ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اس سے نمٹنے کے لئے محض دو یا تین روز پہلے سخت ترین قوانین کا صدارتی آرڈی نینس جاری کیا گیا تھا۔ لیکن، منگل کو ہونے والا چراغاں دیکھیں تو یوں لگتا ہے گویا اس آرڈی نینس کو صرف نظر کردیا گیا ہو، کیوں کہ اتنا مہنگا چراغاں کسی طور بھی لوگوں نے اپنی جیب سے نہیں کیا۔ اس بات کے درجنوں شواہد موجود ہیں۔ کم ازکم کراچی کی حد تک تو یہ ہوا ہی ہے، کیوں کہ یہاں محلہ در محلہ، گلی در گلی اور سڑک در سڑک ’کنڈوں‘ کے جال بچھے ہوئے ہیں۔ بڑی بڑی بستیاں ان کنڈوں پر چل رہی ہیں پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ چراغاں کے لئے بجلی کا باقاعدہ بل ادا کیا گیا ہو!!
کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن، نارتھ کراچی آفس کے ایک عہدیدار انتخاب عالم نے ’وی او اے‘ کو بتایا، ’لوڈ شیڈنگ کی اصل وجہ یہی ہے کہ شہر میں بڑے پیمانے پر بجلی چوری ہوتی ہے۔ بارہ ربیع الاول کی بات تو چھوڑ دیجیئے کہ سال میں ایک بار ہی یہ دن آتا ہے۔ لوگ تو شادی بیاہ کے موقع پر بھی ساری بجلی کنڈا ڈال کر نمٹاتے ہیں۔ کیا شادی حال اور کیا گھریلو صارفین۔۔ان کی ایک بڑی تعداد کہیں نہ کہیں سے بجلی چوری کرتی ہے۔‘
شاید کبھی بھی درست اعداد و شمار سامنے نہ آسکیں کہ ایک دن میں ملک بھر میں کتنی بجلی چوری ہوئی اور اس سے ملک کو کتنا نقصان ہوا۔ حکام بالا، ارباب اختیار اور بجلی فراہم کرنے والی تمام کمپنیاں بجلی چوری کی وارداتوں اور بجلی کی پیداوار و کمی میں نمایاں فرق جاننے کے باوجود، عیدمیلاد النبی کے حوالے سے بجلی بچت کرنے کی ایک بھی عوامی سطح کی آگاہی مہم شروع نہیں کر سکیں۔ انتخاب عالم کے بقول، ’شاید اس طرف کسی نے توجہ دی ہی نہیں۔‘
وہ مزید کہتے ہیں، ’غالباً، اس کی ایک بڑی وجہ یہ مخصوص سوچ بھی رہی کہ جس سے ہر شخص، ہر سطح پر اندر ہی اندر ڈرتا رہا کہ اگر اس نے اس موقع پر بجلی کی کفایت شعاری پر زور دیا تو لوگ کہیں اسے ’گناہ گار‘ یا ’قصور وار‘ نہ ٹھہرا دیں۔‘
آئندہ موسم گرما انتہائی سخت ہوگا؟
غیر متوازن چراغاں کا اثر آنے والے موسم سرما میں پہلے سے زیادہ لوڈ شیڈنگ کی شکل میں نکلے گا۔ اب یہ بات مزید واضح ہے۔ کیوں کہ، سردی کے موسم میں بجلی کی جس حد تک بھی بچت ہوئی وہ ایک دن کے غیر ضروری چراغاں میں نکل گئی۔چونکہ، پاکستان میں زیادہ تر بجلی فرنس آئل سے بنتی ہے اس لئے یہ انتہائی مہنگی بھی پڑتی ہے۔ لامحالہ اس کا بوجھ ملکی خزانے پر تو پڑے گا ہی۔
دارالعلوم یٰسین القران نارتھ کراچی کے مفتی نجم الحسن کہتے ہیں، ’ہمارا مقصد ہر گز یہ نہیں ہے کہ تہوار منانا چھوڑ دیا جائے یا عوام چراغاں کرنا ہی چھوڑ دے۔ بلکہ، مقصد یہ ہے کہ جس چیز کے بغیر کام چل سکے اسے اپنایا جائے یا کم از کم اس میں ایک مناسب توازن رکھا جائے، تاکہ ہمارا ملک بھی ترقی پذیر ممالک کی صف سے نکل کر ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوسکے۔‘
فضول خرچی خود دین اسلام میں منع ہے۔ یہ دینی تقاضہ بھی ہے کہ اس طرح کے غیر متوازن، بے دریغ (اور کسی حد تک غیر ضروری) چراغاں کے تیزی سے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکا جائے۔
اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آئندہ سالوں میں حکومت کو عوامی آگاہی کی مہم شروع کرنا ہوگی، ورنہ جن عالمی اداروں، مثلاً یو ایس ایڈ اور آئی ایم ایف سے ہم بجلی کے حصول میں مدد لے رہے ہیں، وہ بھی ہاتھ کھینچ لیں گے۔۔یا غیر ملکی قرض بڑھتا چلاجائے گا۔۔۔ ملکی ادارے اپنے پاوٴں پر کھڑے نہیں ہو سکیں گے۔ مزید ممالک مثلاً بھارت، چین اور ایران سے بھی بجلی مہنگے داموں درآمد کرنا پڑے گی اور اس کے نتائج کس حد تک سنگین ہو سکتے ہیں، اس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق، اوسطاً 7سے 10دنوں تک بے شمار عمارتوں پر کروڑوں بلب روشن رہے۔ انگنت مکانات، مساجد، باغات، میدان، گلیاں اور سڑکیں ایسی تھیں جو ساری ساری رات انتہائی تیز روشنیوں میں نہاتی رہیں۔ گویا، روشنیوں کی نا رکنے والی ’موسلا دھار بارش‘ تھی جس سے ملک کا گوشہ گوشہ تربتر ہوگیا۔
کیا چراغاں بے دریغ اور غیر متوازن تھا۔۔؟
زمینی حقائق کا جائزہ لیں تو یہ تلخ حقیقت آشکارہ ہوتی ہے کہ پاکستان جیسا ملک جہاں توانائی کا سخت بحران ہو، لوڈشیڈنگ سے انگنت فیکٹریاں، کارخانے، صنعتیں اور درجنوں کاروبار تباہ ہوگئے ہوں، جہاں لوڈ شیڈنگ اور بجلی کی بلاتعطل فراہمی کے وعدے انتخابی منشور کا حصہ ہوں، جہاں وزیراعظم اس مسئلے پر عدالتی کٹہروں میں طلب کرلئے جاتے ہوں، کیا واقعی وہاں اس قدر بے دریغ چراغاں درست ہے؟
ایک دینی تنظیم ’اہل سنت و الجماعت‘ کے عہدیدار، حافظ جنید خان کا نظریہ یہ ہے کہ ’چراغاں کے منتظمین اسے پیمبر اسلام سے عقیدت اور محبت کے اظہار کا ذریعہ کہتے ہیں۔ لیکن، اظہار محبت کے وقت اگر ملکی حالات اور توانائی کے بحران کو بھی مد نظر رکھ لیا جاتا، تو بہتر تھا۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ ایک دن میں اتنی بجلی خرچ ہوگئی جتنی شاید پورے سال بھی خرچ نہیں ہوتی۔‘
ایک اور عالمِ دین، علامہ مولانا حافظ احمد، جن کا تعلق مدرسہ بنوری ٹاوٴن کراچی سے ہے، بات چیت میں، اُنہوں نے بھی اِسی بات پر زور دیا کہ اسلام میانہ روی کا درس دیتا ہے۔ اُن کے الفاظ میں، ’کل جو چراغاں ہوا سو ہوا آج دوسرے دن بھی بیشتر علاقوں کا یہی حال ہے کہ وہاں آج بھی چراغاں کیا جارہا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ سردی کے باوجود ملک بھر میں ہر روز کئی کئی گھنٹے لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔ لیکن، منگل کو لوڈ شیڈنگ بھی کہیں نہیں ہوئی۔ یعنی، جو چند گھنٹے بجلی بچ سکتی تھی وہ بھی نہیں بچ سکی۔‘
سوچ کے نظریئے:
پاکستان میں عید میلاد النبی کو جوش و خروش سے منانے کا سلسلہ مختلف دینی جماعتوں کے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے سبب زیادہ پروان چڑھا ہے۔ یہ جماعتیں اپنے اپنے مسلک کے تحت اسے منانے یا نہ منانے کے نظریئے کی حامی ہیں۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے عالم دین شاہ تراب الحق، مولانا انس نورانی اور ثروت اعجاز قادری کا کہنا ہے کہ ’پیغمبر اسلام جیسی عظیم ترین ہستی کے یوم پیدائش پر جشن منانا اچھی روایت ہے۔ یہ ان سے محبت کا ذریعہٴاظہار ہے۔ جب گھر کے کسی فرد کی خوشی کے موقع پر خرچ کا خیال نہیں رکھا جاتا، تو پھر بھلا عید میلاد پر ہی ایسا کیوں۔ اس عظیم ترین ہستی کے مقابلے میں بجلی کا خرچ کیا معنی رکھتا ہے۔‘
پاکستان میں بجلی چوری ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اس سے نمٹنے کے لئے محض دو یا تین روز پہلے سخت ترین قوانین کا صدارتی آرڈی نینس جاری کیا گیا تھا۔ لیکن، منگل کو ہونے والا چراغاں دیکھیں تو یوں لگتا ہے گویا اس آرڈی نینس کو صرف نظر کردیا گیا ہو، کیوں کہ اتنا مہنگا چراغاں کسی طور بھی لوگوں نے اپنی جیب سے نہیں کیا۔ اس بات کے درجنوں شواہد موجود ہیں۔ کم ازکم کراچی کی حد تک تو یہ ہوا ہی ہے، کیوں کہ یہاں محلہ در محلہ، گلی در گلی اور سڑک در سڑک ’کنڈوں‘ کے جال بچھے ہوئے ہیں۔ بڑی بڑی بستیاں ان کنڈوں پر چل رہی ہیں پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ چراغاں کے لئے بجلی کا باقاعدہ بل ادا کیا گیا ہو!!
کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن، نارتھ کراچی آفس کے ایک عہدیدار انتخاب عالم نے ’وی او اے‘ کو بتایا، ’لوڈ شیڈنگ کی اصل وجہ یہی ہے کہ شہر میں بڑے پیمانے پر بجلی چوری ہوتی ہے۔ بارہ ربیع الاول کی بات تو چھوڑ دیجیئے کہ سال میں ایک بار ہی یہ دن آتا ہے۔ لوگ تو شادی بیاہ کے موقع پر بھی ساری بجلی کنڈا ڈال کر نمٹاتے ہیں۔ کیا شادی حال اور کیا گھریلو صارفین۔۔ان کی ایک بڑی تعداد کہیں نہ کہیں سے بجلی چوری کرتی ہے۔‘
شاید کبھی بھی درست اعداد و شمار سامنے نہ آسکیں کہ ایک دن میں ملک بھر میں کتنی بجلی چوری ہوئی اور اس سے ملک کو کتنا نقصان ہوا۔ حکام بالا، ارباب اختیار اور بجلی فراہم کرنے والی تمام کمپنیاں بجلی چوری کی وارداتوں اور بجلی کی پیداوار و کمی میں نمایاں فرق جاننے کے باوجود، عیدمیلاد النبی کے حوالے سے بجلی بچت کرنے کی ایک بھی عوامی سطح کی آگاہی مہم شروع نہیں کر سکیں۔ انتخاب عالم کے بقول، ’شاید اس طرف کسی نے توجہ دی ہی نہیں۔‘
وہ مزید کہتے ہیں، ’غالباً، اس کی ایک بڑی وجہ یہ مخصوص سوچ بھی رہی کہ جس سے ہر شخص، ہر سطح پر اندر ہی اندر ڈرتا رہا کہ اگر اس نے اس موقع پر بجلی کی کفایت شعاری پر زور دیا تو لوگ کہیں اسے ’گناہ گار‘ یا ’قصور وار‘ نہ ٹھہرا دیں۔‘
آئندہ موسم گرما انتہائی سخت ہوگا؟
غیر متوازن چراغاں کا اثر آنے والے موسم سرما میں پہلے سے زیادہ لوڈ شیڈنگ کی شکل میں نکلے گا۔ اب یہ بات مزید واضح ہے۔ کیوں کہ، سردی کے موسم میں بجلی کی جس حد تک بھی بچت ہوئی وہ ایک دن کے غیر ضروری چراغاں میں نکل گئی۔چونکہ، پاکستان میں زیادہ تر بجلی فرنس آئل سے بنتی ہے اس لئے یہ انتہائی مہنگی بھی پڑتی ہے۔ لامحالہ اس کا بوجھ ملکی خزانے پر تو پڑے گا ہی۔
دارالعلوم یٰسین القران نارتھ کراچی کے مفتی نجم الحسن کہتے ہیں، ’ہمارا مقصد ہر گز یہ نہیں ہے کہ تہوار منانا چھوڑ دیا جائے یا عوام چراغاں کرنا ہی چھوڑ دے۔ بلکہ، مقصد یہ ہے کہ جس چیز کے بغیر کام چل سکے اسے اپنایا جائے یا کم از کم اس میں ایک مناسب توازن رکھا جائے، تاکہ ہمارا ملک بھی ترقی پذیر ممالک کی صف سے نکل کر ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوسکے۔‘
فضول خرچی خود دین اسلام میں منع ہے۔ یہ دینی تقاضہ بھی ہے کہ اس طرح کے غیر متوازن، بے دریغ (اور کسی حد تک غیر ضروری) چراغاں کے تیزی سے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکا جائے۔
اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آئندہ سالوں میں حکومت کو عوامی آگاہی کی مہم شروع کرنا ہوگی، ورنہ جن عالمی اداروں، مثلاً یو ایس ایڈ اور آئی ایم ایف سے ہم بجلی کے حصول میں مدد لے رہے ہیں، وہ بھی ہاتھ کھینچ لیں گے۔۔یا غیر ملکی قرض بڑھتا چلاجائے گا۔۔۔ ملکی ادارے اپنے پاوٴں پر کھڑے نہیں ہو سکیں گے۔ مزید ممالک مثلاً بھارت، چین اور ایران سے بھی بجلی مہنگے داموں درآمد کرنا پڑے گی اور اس کے نتائج کس حد تک سنگین ہو سکتے ہیں، اس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں ہے۔