|
نئی دہلی _ بھارت اور چین کی افواج کی مشرقی لداخ میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر متنازع علاقے سے واپسی کے بعد دیپسانگ اور ڈیمچوک کے مقام پر مشترکہ پیٹرولنگ شروع ہو گئی ہے۔
چار سال بعد سرحدی کشیدگی کے خاتمے اور دونوں ملکوں کے درمیان ایک معاہدے تک پہنچنے کے بارے میں اگرچہ تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں اور نہ ہی فریقین میں سے کسی نے کوئی بیان دیا ہے۔ البتہ ایسا سمجھا جاتا ہے کہ بعض دوست ملکوں نے اس سلسلے میں ثالثی کی یا سمجھوتے کی راہ ہموار کی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی آرمی کی جانب سے بدھ کو متنازع مقامات پر جا کر چینی افواج کی واپسی کی تصدیق کی گئی تھی جب کہ جمعرات کو لداخ سمیت ایل اے سی پر پانچ مقامات پر دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان مٹھائیوں کا تبادلہ بھی ہوا۔
یاد رہے کہ بھارتی حکومت نے 21 اکتوبر کو فریقین کے درمیان معاہدہ ہونے کا اعلان کیا تھا جس کی تصدیق اگلے روز چین نے کی تھی۔
بعد ازاں بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان 23 اکتوبر کو روس کے شہر کازان میں برکس سربراہی اجلاس کے موقع پر دو طرفہ ملاقات اور مذاکرات بھی ہوئے تھے۔
مئی 2020 میں وادی گلوان میں پینگانگ جھیل کے ساحل پر دونوں ملکوں کے فوجی جوانوں کے درمیان خونی جھڑپ ہوئی تھی جس میں بھارت کے 20 جوان ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان زبردست کشیدگی پیدا ہو گئی تھی۔
کشیدگی اور سرحدی تنازعات کو دور کرنے کے لیے فریقین کے درمیان کمانڈرز کی سطح پر اور سفارتی چینلز سے مذاکرات کے متعدد ادوار ہوئے۔ بالآخر چین متنازع مقامات سے اپنی افواج کو پیچھے ہٹانے اور دیپسانگ اور ڈیمچوک پر مشترکہ گشت کے لیے راضی ہوا۔
نئی دہلی کے تجزیہ کاروں سے ہونے والی گفتگو اور بعض میڈیا رپورٹس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بعض دوست ملک بالخصوص روس اور سنگاپور نے فریقین کو معاہدہ کرنے پر آمادہ کیا ہے۔
'روس امریکہ مخالف لابی تیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے'
عالمی امور کے سینئر تجزیہ کار پشپ رنجن کا کہنا ہے کہ بھارت چین سرحدی کشیدگی کے خاتمے کے لیے روس نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کے مطابق امریکہ سے بڑھتے اختلافات کی وجہ سے روس امریکہ مخالف لابی تیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کے بھارت اور چین دونوں سے دوستانہ تعلقات ہیں۔ اس لیے اسے دونوں ملکوں کے درمیان سمجھوتہ کرانے میں کامیابی ملی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے پشپ رنجن نے کہا کہ بھارت اور چین کے درمیان جیوپولیٹکس کے علاوہ سمجھوتے کی دوسری اہم وجہ دونوں ملکوں کی اقتصادی ضرورت اور تجارتی مفادات ہیں۔
بھارت اور چین کے بگڑتے رشتوں کے باوجود باہمی تجارت میں اضافہ ہوا ہے۔ البتہ تجارت کا جھکاؤ چین کی جانب زیادہ ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت چین سے تجارتی رشتے خراب کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ البتہ اس کی کوشش ہے کہ باہمی تجارت میں توازن پیدا ہو۔
SEE ALSO: 'برکس گروپ کا امریکی ڈالر کو چیلنج کرنا افسانوی سی بات لگتی ہے'بھارت اور چین کے درمیان سرحدی کشیدگی کے خاتمے سے متعلق بھارت کے انگریزی روزنامہ ’ڈیکن ہیرالڈ‘ کے واشنگٹن نمائندے کے پی نائر نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ ماسکو اور سنگاپور نے اس میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
حالاں کہ بھارت کے سیکریٹری خارجہ وکرم مسری نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا تھا کہ وہ صرف اتنا بتا سکتے ہیں کہ فریقین سفارتی اور فوجی سطح پر قریبی رابطے میں رہے ہیں۔
ڈیکن ہیرالڈ کی رپورٹ کے مطابق بھارت اور چین کے درمیان مذاکرات کے متعدد ادوار کے باوجود کوئی اہم پیش رفت نہیں ہوئی تو اپریل 2023 میں سنگاپور میں ٹریک 1.5 میٹنگ ہوئی تھی جو کہ دونوں ملکوں کی قومی سلامتی کے نمائندوں کے درمیان آزاد ماحول میں پہلی میٹنگ تھی۔
رپورٹ کے مطابق حالاں کہ ٹریک 1.5 میٹنگ میں بہت زیادہ پیش رفت نہیں ہوئی کیوں کہ فریقین کے پاس کسی معاہدے تک پہنچنے کے لیے کوئی واضح بنیاد نہیں تھی۔ لیکن اس کی ایک بڑی کامیابی یہ تھی کہ وہ اسی فارمیٹ میں دوبارہ ملنے کے لیے راضی ہو گئے تھے۔
دونوں ملکوں کے عہدیداروں کے درمیان جولائی 2024 میں سنگاپور میں دوسری ملاقات ہوئی تھی جس میں معاہدے کے متعدد نکات پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔
اس ملاقات کے بعد نئی دہلی اور بیجنگ میں انٹیلی جینس اور اسٹرٹیجک حلقوں میں معاہدے کے سلسلے میں پائے جانے والے شبہات دور ہوئے۔
SEE ALSO: بھارت اور چین کا سرحدی معاہدہ: 'تنازعات کا حل اور افواج کی واپسی کی راہ ہموار ہو گی'اخبار کے نمائندے نے میٹنگ میں شرکت کرنے والے ایک اعلیٰ سطح کے ایک اہل کار کے حوالے سے، جس کا تعلق بھارت اور چین سے نہیں ہے، یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ ان دونوں میٹنگوں میں سنگاپور کی حکومت شریک نہیں ہوئی۔ تاہم اس نے میٹنگ کے انعقاد میں مدد دی۔
سرحدی کشیدگی کے خاتمے کے معاہدے کے بعد نئی دہلی کا کہنا تھا کہ متنازع سرحدی علاقے سے افواج کی واپسی اور گشت کے آغاز سے اعتماد بحال ہوگا۔
عالمی امور کے سینئر تجزیہ کار پروفیسر عتیق احمد فاروقی کہتے ہیں بھارت چوں کہ ایک عالمی معاشی طاقت بن رہا ہے اس لیے وہ چاہتا ہے کہ جن ملکوں سے تعلقات اچھے نہیں ان سے بھی اچھے بنائے جائیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چین سے بھارت کے معاہدے کی ایک بڑی وجہ تجارتی ضرورت ہے۔ چین ایک بڑی طاقت ہے اور بھارت بہت سے معاملات میں اس پر منحصر ہے۔ اس کے علاوہ بھارت نہیں چاہتا کہ چین پاکستان کے ساتھ مل کر اس کے خلاف کوئی محاذ کھڑا کرے۔
ان کے بقول اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بھارت اور چین کے درمیان ہونے والے معاہدے میں روس کا کردار بھی ہے۔ ماسکو کے چین کے ساتھ اسٹرٹیجک تعلقات ہیں اور بھارت اس کا ایک قدیم دوست ملک ہے۔ لہٰذا اس نے اس معاہدے کی راہ ہموار کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ میڈیا میں ایسی خبریں ہیں کہ سنگاپور نے بھی اس میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کے بقول اگر اس نے یا کسی تیسرے ملک نے بھی اس معاملے میں کوئی تعاون دیا ہو تو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔
تجزیہ کار پشپ رنجن کا بھی کہنا ہے کہ روس نے دونوں ملکوں پر اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے معاہدہ کروایا ہے۔ ان کے مطابق روس اور چین مل کر امریکہ کے خلاف ایک لابی تیار کر رہے ہیں۔
جب کہ امریکہ کی بائیڈن انتظامیہ نے بھی الزام لگایا ہے کہ چین امریکی صدارتی انتخابات میں گڑبڑ کی کوشش کر رہا ہے۔
تجزیہ کار کے مطابق چین اور روس تجارتی محاذ پر امریکہ کو زک پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ روس، چین اور بھارت کے درمیان اب بہت سی تجارتی لین دین مقامی کرنسی میں ہو رہی ہے جس کا مقصد ڈالر کو کمزور کرنا ہے۔
پشپ رنجن نے مزید کہا کہ ایک طرف روس پر امریکی اور مغربی پابندیوں کے بعد بھارت نے اس سے بہت زیادہ تیل خریدنا شروع کیا اور دوسری طرف یوکرین جنگ شروع ہونے کے بعد بھارت اور چین مختلف فورمز پر ملتے گئے اور ان کے درمیان ٹریک ٹو ڈپلومیسی بھی جاری رہی۔
Your browser doesn’t support HTML5
کے پی نائر بھی اپنی رپورٹ میں روس کی سرگرم مداخلت کا ذکر کرتے ہیں۔ ان کے مطابق روس گزشتہ دو برس سے نئی دہلی اور بیجنگ کے درمیان اعتماد کے فقدان کو ختم کرانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ گزشتہ سال کے شروع میں روس نے اس بارے میں ایک بیان بھی دیا تھا۔
مارچ 2023 میں نئی دہلی میں منعقد ہونے والے ’رائسینا ڈائیلاگ‘ میں روس کے وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا تھا کہ روس مددگار بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہم ان دو عظیم ملکوں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
ڈیکن ہیرالڈ کی رپورٹ کے مطابق دو ماہ قبل ماسکو میں روس، انڈیا، چائنا (آر آئی سی) ڈپلومیٹک میکینزم کے تحت ٹریک ٹو میٹنگ کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں تینوں ملکوں نے وسیع تر تبادلہ خیال کیا۔ لیکن وہ میٹنگ روس کی جانب سے ثالثی نہیں تھی۔
بعض دیگر تجزیہ کاروں کے مطابق امریکہ جہاں انڈو پیسفک میں چین کی بڑھتی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے بھارت کے فعال کردار کا خواہش مند ہے وہیں وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ بھارت 'کواڈ' میں بھی اہم کردار ادا کرے۔ لیکن بھارت ان دونوں محاذوں پر زیادہ فعال دکھائی نہیں دے رہا۔
کواڈ چار جمہوریتوں کا ایک سفارتی نیٹ ورک ہے جس میں بھارت، امریکہ، آسٹریلیا اور جاپان شامل ہیں۔
روس یہ نہیں چاہتا کہ انڈوپیسفک میں امریکہ کی بالادستی قائم ہو۔ اس لیے وہ بھارت اور چین کے درمیان دوستی کا خواہش مند ہے۔ ماسکو حکومت بھارت کو کواڈ سے بھی الگ کرنا چاہتی ہے یا کم از کم کواڈ میں رہ کر بھارت کے غیر فعال رہنے کی خواہاں ہے۔
پشپ رنجن کے مطابق بھارت چین سے اپنے رشتوں کو بحال کر کے اور یوکرین اور مشرقِ وسطیٰ میں جنگ بندی اور مذاکرات سے تنازعات کو حل کرنے کا مؤقف اختیار کر کے اپنی ایک مضبوط پوزیشن بنانا چاہتا ہے۔ تاکہ نئی امریکی انتظامیہ کے سامنے مسائل کے سلسلے میں طاقت ور انداز میں اپنا مؤقف رکھ سکے۔